Silsila e Kamaliya
Teachings of Islam, Iman and Ehsan
  • Home
  • Introduction
  • Mamulaat
  • Taleemat
  • Bayanaat
  • Books
  • Hamd o Naat
  • Shajrah
  • Biography
  • Dua
  • Contact

Jan 8 2015

Rights of Allah, Abdullah

Rights of Allah, Abdullah

اللہ اور بندے کے حقوق

اللہ کا حق تنزیہہ ہے کیونکہ اسکی شان لَیْسَ کَمِثْلِہٖہے اسکے مثل کوئی شئی نہیں یہ اسکی شان ہے اسی مرتبہ کی طرف اشارہ کیلئے حضورﷺنے ارشادفرمایا

ماعرفناک حق معرفتکRights of Allah, Abdullah

ہم نے نہیں پہچانا تجھ کو جیسا پہچانے کا حق ہے

لہٰذا تنزیہ الہ کا وہ حق جس میں مخلوق خالق کا احاطہ نہیں کر سکتی

اور بندے کا حق تشبیہ ہے تشبیہ اسکو کہتے ہیں کہ اللہ کو آفاق وانفس میں دیکھنا اور پانا جسکا تذکرہ

سَنُرِیْھِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِیْ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ میں مذکور ہے

اللہ اور بندے کے لوازم کے عرفان سے دو ذات کا قائل ہونا سمجھ میں آتا ہے

اللہ اور بندے کے آداب کے عرفان سے وحدت الوجود مفہوم ہوتا ہے

اللہ اور بندے کے حقوق کے عرفان سے اللہ کامطلق ہونا اور بندے کے مقید ہونے کی نسبت سمجھ میں آتی ہے

لوازم کا عرفان ہو اور علم کو برتے تو راز فقیری کھلتا ہے

آداب کا عرفان ہو اور بر محل علم کو برت رہا ہو تو تو تکبر دور ہوجاتا ہے تواضع کا پیکر بن جاتا ہے

حقوق کا عرفان ہو اور علم کا صحیح استعمال ہو تو معیت وقرب الٰہی کھلنے لگتا ہے عبدیت کے مقام پر مضبوطی سے جما ہوا رہتا ہے

معبود کیلئے فعل ثابت اگر فعل نہ ہو تو مجبور ۔

معبود کیلئے صفات ثابت اگر صفات نہ ہوں تو معطل۔

معبودکیلئے وجو ثابت اگر وجود نہ ہو تو عدم ۔مگر اللہ معدوم نہیں ہے بلکہ موجود ہے اگر کوئی ان سے انکارکرتا ہے تو (یعنی افعال صفات وجود سے) تو کافر ہوجاتا ہے ۔

اگر کوئی ان کو مان کرانکار کرتا ہے تو مرتد ہوجاتاہے ۔

اگر ان میں کوئی شک کرتا ہے تو منافق ہوجاتا ہے ۔اگر کوئی اسکی تصدیق کرتا ہے تو مؤمن ہوجاتا ہے ۔لہٰذا اس بیان سے ثابت ہوا کہ اللہ کیلئے وجود وصفات وافعال ثابت ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افعال کا صدور کس پر ہو ؟

ظاہر ہے کہ افعال کاصدور غیر اللہ یا ماسویٰ اللہ پر ہوگا ۔

اس غیر اللہ یا ماسوی اللہ کو ہم قرآنی الفاظ میں یا اصطلاح قرآن میں (شئی) بھی کہتے ہیں فعل ہمیشہ مؤثر ہوتا ہے اور جس پر اثر کرتا ہے ہم اسے متأ ثر یا آثار کہتے ہیں لہٰذا کائنات کی تمام اشیا ء کو ہم آثار اللہ کہیں گے ان کو آثار اللہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ فعل کا اثر قبول کرنے والے ہیں یعنی آثار اپنی استعداد کی موافق اللہ کے فعل کو کام میں لاتے ہیں ب اللہ کیلئے چار چیزیں ثابت ہوئیں ۔وجود صفات ۔ افعال۔ آثار۔ ان چاروں چیزوں کو صوفیا کی اصطلاح میں اعتبارات الٰہیہ کہتے ہیں ۔جبکہ آثار کو ہم ماسوی اللہ مان چکے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ما سوی اللہ خود اللہ کاعتبار کیسے ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہیکہ آثار میں اللہ کے چاروں اعتبارات پائے جاتے ہیں ( یعنی آثار میں اللہ کا وجود بھی ہے صفات بھی ہے افعال بھ ہے اور یہ خود اللہ کے آثار بھی ہیں اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ آثار اللہ بھی ہیں اور ماسوی اللہ بھی ہیں اب یہ دونوں ایک کس طرح پر ہیں ؟ اس کی تشریح حسب ذیل ہے

چونکہ آثار خود بخود موجود نہیں ہوئے ہیں بلکہ اللہ کی وجود بخشی کی وجہ سے موجو ہیں ۔اس لئے ان کو وجود الہ ہی کے وجود ک وجہ سے ان کے صفات کمالیہ اللہ ہی کے صفات کمال کی وجہ سے اوران کے افعال اللہ ہی کے افعال کی وجہ سے ،یہ تینوں رخ ،اللہ پاک کے خود اپنے ذاتی اعتبا ر ہیں جو ہر شئی میں پائے جاتے ہیں ۔اسی حد تک شئی کا اللہ کااعتبارہونا ثابت ہے۔اب شئی کا دوسرا رخ صفات نقصانیہ ہے یعنی اسکی اپنی ذات جس میں اللہ کی صفات پائے جارہے ہیں۔یا الہ کی چیزیں پائی جارہی ہیں مُظہر یعنی اللہ کو اپنے ظہور کیلئے مَظہر یعنی ماسوی اللہ چاہئے یہی چاہت باعث تخلیق کائنات ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ آثار اللہ ایک حیثیت سے اللہ کے اعتبار ہیں دوسری حیثیت سے ماسوی اللہ ہیں اور یہی کامل التحقیق صوفیا کاکمال ہے

کہ وہ جامع الاضداد ہوتے ہین ۔۔۔۔۔۔۔جب ذات خلق میں یہ سب عاریتاً اور امانتاً ہوں تو پھر ذات خلق کے اپنے اعتبارات کیا ہیں ؟ ذات خلق کے بھی اپنے اعتبارات ہیں اور وہ بھی چار ہیں جواسکے اصلی اورحقیقی ہیں اور وہ یہ ہیں ۔فقیر۔ذلیل۔

عاجز ۔ اور جاہل۔ یہاں فقیر کے یہ معنیٰ ہیں کہ وہ جو وجود سے خالی ہو ۔ذلیل ،سے مراد یہ کہ وہ جو صفات کمال سے متصف وموصوف نہ ہو۔عاجز۔ایسا کہ جوفعل سے عاری ہو۔

اور جاہل۔ وہ جو علم نہ رکھتا ہو۔ذات خلق اگر اعتبارات الٰہیہ کواپنے ذاتی سمجھلے تواس سے دوغلطیاں سرزدہوں گی

ایک غلطی تو یہ کہ غیر کی چیز کوا پنی سمجھ بیٹھا تو لہٰذا غاصب ہوا دوسری غلطی یہ کہ اپنی چیز کو بھلادیا تو غافل ہوا ۔اس اعتبار سے ایک جرم کی دوسزائیں ہوئیں۔

ایک سزااسکے غصب کی اوردوسری سزااسکی غفلت کی

یہ ایک حقیقت ہے کہ الہ غاصب کو سخت سے سخت سزا دیتے ہیں کیونکہ غصب شرک ہے ۔۔اس سے کہیں کمتر سزا غافل کو ملتی ہے کہ ۔کیونکہ غفلت گناہ ہے

کلمے میں ترتیب وتناسب کا پایا جانا۔

ترتیب کی تعریف:۔جس چیز کو جہاں ہونا چاہئے اس کا وہیں پایاجاناترتیب ہے ۔مثلاً انسان کے اعتبار سے جہاں ہاتھ کوہوناچاہئے اس کا وہیں موجود ہونا ترتیب ہے اس طرح پاؤں سر ناک کان حلق آنکھ او منھ وغیرہ کا اپنے محل اور مقام پر پایا جانا ترتیب ہے ۔تناسب کی تعریف :۔

جس کو جتنا ہونا چاہئے اس کا اتنا ہی پایا جاناتناسب ہے ۔مثلاً ۔نسان کے اعتبار سے ہاتھ بڑے ہوں اور نہ ہی چھوٹے بلکہ متوسط ہوں یہی تناسب ہے اسی طرح پاؤں نہ تو بڑے ہوں اور نہ چھوٹے بلکہ اوسط ہوںیہی تناسب ہے او ر سر آنکھ کان ناک منھ وغیرہ کا بھی نہ بڑاہونا اور نہ چھوٹا ہونا بلکہ اوسط ہونا ہی تناسب ہے ۔

مختصراً یہ کہ ترتیب میں ہر شئی کا اپنے محل اور مقام پر ہونااہم ہوتاہے اور تناسب میں ہرشئی کی مقداراہم ہوتی ہے

کسی انسان کو خوبصور ت اسی وقت کہ جاتا ہے جب کہ اس کے اعضا میں ترتیب وتناسب برقرار ہو ۔اگر ان دونوں یعنے ترتیب و تناسب میں سے کوئی ایک یا دونوں بگڑ جائیں تو انسان خوبصورت ہونے کے بجائے بد صورت ہوجاتا ہے ۔

کلمۂ طیبہ دنیا ودین کا خوبصورت ترین کلمہ ہے اسکی خوبصورتی کا قائم رکھنا ہر مسلم ومؤمن کا فرض ہے اب ہم یہ دیکھیں گے کہ کلمہ کی ترتیب اوراسکا تناسب کیا ہے ؟

ہمیں اس بات کا پتہ ہے کہ اعتبارات الٰہیہ چار ہیں ۔آثار اللہ۔ افعال اللہ۔ صفات اللہ ۔ ذات اللہ ۔ انہیں اعتبارات الٰہیہ کے ذریعہ ہم پہلے کلمہ کی ترتیب معلوم کریں گے آثار اللہ پر کامل غور وفکر کے بعد اللہ ہی کو معبود قرار دیتے ہیں لہٰذا معبود صرف اللہ کو کہنا کلمہ کا پہلا مقام ہے ۔افعال اللہ پر کامل غوروفکرکرنے کے بعداللہ ہی کواپنامقصودقراردیتے ہیں لہٰذاکلمہ کا دوسرا مقام اللہ ہی کو اپنا مقصود کہنا ہے۔

صفات اللہ پر کامل ور وفکر کرنے کے بعد اللہ ہ کو ہم موجود قرار دیتے ہیں لہٰذا کلمہ کا تیسرا مقام صرف اللہ ہی کو موجود کہناہے ۔اللہ کے وجود پر کاملغور وفکرکرنے کے بعد اللہ ہی کو ہم مشہود قرار دیتے ہیں لہٰذا کلمے کا چوتھا مقام صرف اللہ ہی کو مشہود کہنا ہے اب کلمہ کی ترتیب یہ ہوئی کہ اللہ ہی ہمارا معبود ہے !جو معبود ہوگا وہی مقصود بھی ہوگا جو مقصود ہوگا وہی موجود بھی ہوگا اور جو موجود ہوگا وہی مشہود بھی ہوگا کلمے کو خوبصورت رکھنے کیلئے اس ترتیب کیحفاظت لازمی ہے ۔

اسی طرح کلمہ کے تناسب پر ایک غائر نظر ڈالیں گے ہمیں معلوم ہے کہ افراط وتفریط سے بچکر اسط پر قائم رہنا ہی کلمہ کا تناسب ہے ،یہاں بھی ہم ارتبارات الٰہیہ سے کام لیں گے ۔آثار میں افراط کرنا شرک جلی ہے ۔اورآثار میں تفریط کرنا تعطیل ہے (یعنی اللہ کو معل ٹھیرانا ہے ) التہ افراط وتفریط سے بچکر اوسط پر قائم رہنا توحید اسمائی ہے

اسی طرح افعال میں فراط کرنا شرک خفی ہے اور افعال میں تفریط کرنا تعطیل ہے(یعنی اللہ کے افعال کومعطل ٹھیرانا) ہے البتہ افراط وتفریط سے بچکر توحید اوسط پر قائم رہناتوحید افعالی ہے ۔ صفات میں افراط کرنا شرک اخفیٰ ہے اور صفات کی تفریط اسکی تعطیل ہے(یعنی اللہ کی صفات کو معطل ٹھیرانا ہے) البتہ افراط وتفریط سے بچ کراوسط پرقائم رہنا توحیدصفاتی ہے ۔

اسی طرح وجود میں افراط شرک خفی الاخفیٰ ہے اور وجود میں تفریط اسکی تعطیل ہے (یعنی اللہ کے وجود کو معطل کردینا ہے ) لبتہ افراط وتفریط سے بچکر اوسط پر قائم رہنا توحید وجودی ہے ،لہٰذا کلمہ کو خوبصورت رکھنے کیلئے چاروں اعتبارات الٰہیہ میں افراط وتفریط سے بچکر اوسط پر قائم رہنا ہی کلمہ کا تناسب ہے ۔

جو کوئی مسلم مؤمن کلمۂ طیبہ کو ترتیب وتناسب کے ساتھ آراستہ کرکے اس کلمہ کاعلم اوراسکا عمل اللہ کے دربارمیں پیش کرتاہے تواللہ تعالیٰ ایسے مسلم سے تمام حجابات اٹھادیتے ہیں اوراپناقرب عنایت فرماتے ہیں قرب حق میں وہ لذت ہے جسکوصرف ایک عاشق ہی خوب جانتاہے

جسکااظہارنہ توزبان کرسکتی ہے اورنہ آنکھ میںیاراہے کہ دیکھ سکے اورنہ ہی کان میں قوت ہے کہ وہ سنکرسمجھ سکے

By silsilaekamaliya • Qaal e Saheeh • Tags: Qaal e Saheeh

Jan 8 2015

Reason for Creating the Universe

Reason for Creating the Universe

تخلیق عالم کی غایت کیا ہے

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنReason for Creating the Universe
یہ قرآن کا اعلان ہے جو ہر قسم کے ریب وشک سے پاک ہے ۔اور عبادت بھی کیسی
لا تشرکو به شیا
کی قید کے ساتھ اللہ پاک نے قرآن میں فرمایا کہ
وَاعْبُدُواْ اللّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا
تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو تمام انبیا کا پیغام یہی تھا
یقوم اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ
یہی حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت عیسیٰ علیہالسلام تک سبہوں نے یہی پیغام پہنچایا اور حکم سنایا اور آخر میں حضور اکرم سرور کونین ا نے با آےۃ قرآنی اظہار فرمایا
قُلْ یٰٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اﷲِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا اَلَّذِیْ لَہُ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَا اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِہٖ

میں تم سب کی طرف ایک اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جس اللہ کی بادشاہی آسمانوں اور زمینوں میں وہی معبود وہی زندگی اور موت دیتا ہے تو اللہ پر اور اسکے رسول پر ایمان لاؤ۔

کلمہ طیبہ کے قال سے تسلیم حاصل ہوتی ہے اور علم سے تحقیق حاصل ہوتی ہے بلا ثبوت کلمہ کو قبول کرنے کو تسلیم کہتے ہیں اور اسی سے کوئی شخص اسلام میں داخل ہوتا اسکو قبول کرلینے کے بعد اسکا ثبوت دینے کو تحقیق کہتے ہیں اور تحقیق قبول سے افضل ہے مگر قبول تحقیق پر مقدم ہے

لا الٰہ الا اللہ ۔۔اس میں لا کے ذریعہ غیر اللہ کے الٰہ ہونے کی نفی کی جاتی ہے اور الا کے ذریعہ اللہ ہی کے الٰہ ہونے کا اثبات کیا جاتا ہے اللہ اسم ذات ہے ہستئ محض ہے موجود بالذات ہے قائم بخود ہے الٰہ اسم وصفی ہے کلمۂ طیبہ میں اجمالی بیان بھی ہے اور تفصیل بھی اور تحقیق بھی ہے

دعوت ۔ تسلیم وتصدیق کی

ترغیب ۔ ادراک و تحقیق کی

اعتبارات الوہیت چار ہیں:(۱)آثار(۲)افعال(۳)صفات (۴)ذات

اللہ الٰہ ہیں اور حضرت محمد ﷺ رسول ہیں مرکز مخلوقات ہیں ۔حضرت محمدﷺ عبدا للہ بھی ہیں اور نور اللہ بھی ہیں رسول اللہ بھی ہیں سراہے ہوئے بھی ہیں بھیجے ہوئے بھی ہیں ۔محمد آقا ﷺکا اسم ذاتی ہے اس کے علاوہ آپﷺکے بے شمار اسما وصفات ہیں حضورﷺ سب کیلئے رسول ہیں اللہ کی الوہیت سمجھاتے ہیں اور اللہ کی معیت بتا تے ہیں

کلمۂ طیبہ کے یہ دووں اجزا قرآن میں ہیں دو مختلف جگہوں پر ہیں بارہ بارہ ہیں بے نقطہ ہیں نورانی ہیں اجمالی تسلیم سے نجات ملتی ہے اورتفصیلی تحقیق سے یافت ملتی ہے درجات ملتے ہیں ۔محمد رسول اللہ ﷺ حق کی تجلئ اول ہیں مظہر حق ہیں نور ہیں آئینۂ ذات ہیں باعث نمود کائنات ہیں رحمت عالم ہیں مقام محبوبی پر جلوہ افروز ہیں مقام محمود سے ممدوح وموصوف ہیں۔

کلمۂ طیبہ میں (تین) عنوان بنتے ہیں۔ اللہ۔ بندہ۔ رسول۔

آنحضور ﷺ کی دو شانیں ہیں پہلی شان لفظ محمد میں پوشیدہ ہے اور دوسری شان لفظ رسول میں پوشیدہ ہے حضور ﷺ کی پہلی شان محمد ابن عبد اللہ کی اور دوسری شان رسول اللہ کی دونوں شانیں اس آیت میں ظاہر ہیں قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ اَنَّمَا اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌآپ کہہ دیجئے کہ سوائے اسکے نہیں کہ میں تم جیسا آدمی ہوں مگر وحی کی جاتی ہے میری جانب کہ تمہارا وہی ایک معبود ہے یہی دو شانیں کلمۂ شہادت سے بھی ثابت ہیں محمد بن عبد اللہ سے عبدیت کا اثبات ہوتا ہے اور رسول اللہﷺ سے رسالت کا اثبات ہوتا ہے اور لا الٰہ الا اللہ سے الوہیت کا اثبات ہوتا ہے تین لفظ خاص ہوئے اللہ بندہ رسول یہ تینوں لفظ کلمہ کی تحقیق ہی میں ہیں ایک ذات اللہ کی اور وسری ذات بندے کی  کمال اللّٰہی سلسلہ میں یہ بات بتائی جاتی ہے کہ اللہ کے لوازم کیا ہیں اور بندے کے لوازم کیا ہیں اللہ کے آداب کیا ہیں اور بندے کے آداب کیا ہیں اللہ کے حقوق کیا ہیں اور بندے کے حقوق کیا ہیں۔

اللہ کے لوازم صفات کمالیہ (حیات علم ارادہ قدرت سما عت بصارت کلام )

بندے کے لوازم صفات ناقصہ (موت جہل اضطرار عجز بہرہ پن اندھا پ گونگا پن )

اللہ کا ادب کیا ہے؟

اللہ کا ادب یہ ہے کہ اللہ اللہ ہی ہے چاہے وہ کتنا ہی تنزل یعنی تمثل یعنی ظہور کرے

بندے کا ادب کیا ہے ؟

بندے کا ادب یہ ہے کہ بندہ بندہ ہی ہے کتنا ہی عروج یعنی ترقی کرے

By silsilaekamaliya • Qaal e Saheeh • Tags: Qaal e Saheeh

Jan 8 2015

Qaal e Saheeh – Kalima e Tayyeba

Qaal e Saheeh – Kalima e Tayyeba

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قال صحیح

کلمۂ طیبہQaal e Saheeh - Kalima e Tayyeba

کلمۂ طیبہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہﷺ ہے اس میں عموماً لفظ طیب استعمال ہوتا ہے طیب کے معنیٰ پاک کے ہیں اور طیب سے دو مرادیں واضح ہیں ۔

(۱) پاک چیز وہ ہے جس سے ناپاکیاں دور کردی گئی ہوں اور ایسے وقت مراد یہ ہوتی ہے کہ کلمۂ طیبہ کا اقرار کرنے والا اور تصدیق کرنے والا کفر اور شرک کی نجاستوں سے اور ضلالت وگمراہی کی ناپاکیوں سے دور ہوجاتا ہے اور ایک معنی پسندیدہ کے آتے ہیں کلمہ پڑھنے والا شخص اللہ کے نزدیک محبوب وپسندیدہ ہوجاتا ہے ۔کوئی بھی شخص اللہ کا محبوب وپسندیدہ اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ اپنی پسند ترک کرتا ہے اور اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی پسند کردہ چیزوں کو قبول کرتا ہے ۔

کلمۂ طیبہ لا سے شروع ہوتا ہے اور لا کے معنیٰ نہیں کے ہیں

نفی کا حصول بغیر انکار کے ناممکن ہے تو یہاں مراد اس طرح بیٹھے گی کہ وہ دو طرح کا انکار ہے جس کے بعد ایک اقرار وجود میں آتا ہے پہلا ذات حق سے صفات نقص وزوال کا انکار کرنا ضروری ہے ۔اور مخلوقات سے ان میں کمالات کے اصلی اور ذاتی ہونے کا انکار ان دونوں طرح کے انکار سے ایک اقرار ہویدا ہوتا ہے

اللہ ایک ایسی ذات ہے جوجامع جمیع الکمالات ہے موصوف بہ صفات کمال ہے اور ہر نقص وزوال سے پاک ذات ہے ۔

اس کلمہ کی بڑی اہمیت اور فضیلت وعظمت ہے اور قرآن مجید میں خاص طور پر اس کلمہ کو جاننے اس کا علم حاصل کرنے کا حکم ہے ۔چنانچہ ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ

فاعلم انہ لا الٰہ الا اﷲ
آنحضرتﷺ کو مخاطب فرماکر اللہ پاک نے فرمایا کہ آپ لاالٰہ الا اللہ کا علم حاصل کیجئے
اس کلمۂ طیبہ کی ابتدائی لیکن نہایت اہم بات پیش کی جارہی ہے عام طور پر خانوادوں میں طریقت کا علم ہے نہیں اور اگرہے بھی تو کامل نہیں اور اگر کسی درجہ میں دستیاب ہے تو تو بے شمار پردے حائل ہیں ہمیں سلسلوں اور روحانیت کا تفصیلی علم والد ماجد حضرت شاہ صوفی غلام محمد صاحب ؒ سے ملا ویسے دیگر اولاء اللہ سے بھی استفادہ ہواخاص طور پر کمال اللّٰہی سلسلہ کے حضرت درویش میر شبیر علی صاحب چشتی بی ائے بی ایڈ (علیگ ) جانشین حضرت شاہ سید حسین ؒ خلیفۂ اول حضرت شاہ کمال اللہ ؒ سے قال صحیح سے استفادہ ہے حق تعالیٰ افادیت عامہ کی شکل پیدا فرمادے آمین

By silsilaekamaliya • Qaal e Saheeh • Tags: Qaal e Saheeh

Jan 8 2015

Islamic Question Answer – 7

Islamic Question Answer – 7

سوال:۔رضا کسے کہتے ہیں؟

جواب:۔اللہ کے فیصلوں (قضاء) پر اعتراض نہ کرنا زبان سے نہ دل سے رضا کہلاتا ہے۔

سوال:۔رضا کیسے حاصل ہوتی ہے؟

جواب:۔ہمیشہ ہر حال میں یہ سوچنا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو چھ پیش آتا ہے اس میں بندے کا ہی فائدہ ہے چاہے اس فائدہ کی حقیقت بندے کومعلوم ہو یا نہ ہو اور شکایت و حکایت سے پرہیز کرنا رضا حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔

سوال:۔زہد کسے کہتے ہیں؟

جواب:۔دنیا کی رغبت کو چھوڑکر آخرت کی طرف متوجہ ہونا زہد ہے۔

سوال:۔زہد کا کیا حکم ہے؟

جواب:۔فکرِ آخرت اور ایمان کی حفاظت کے لئے زہد امر ضروری ہے۔ رسول اکرم ا فرماتے ہیں جو شخص صبح اٹھتے ہی دنیا کی فکر میں لگ جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا دل پریشان کردیتے ہیں، اور اس کو ملتا اسی قدر ہے جتنا اس کی تقدیر میں لکھا جاچکا ہے اور جو شخص صبح اٹھتے ہی آخرت کی فکر میں لگتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا دل مطمئن رکھتے ہیں اور اس کی دنیا کی خود حفاظت و کفالت فرماتے ہیں اور اس نیک بندے کا دل بے نیاز کردیتے ہیں اور اتنی دنیا دیتے ہیں کہ یہ اس سے منہ پھیرتا ہے اور دنیا اس کے پیچھے پیچھے چلی آتی ہے۔

سوال:۔زہد کا کیا فائدہ ہے؟

جواب:۔زہد سے دل میں ایک نور اور بصیرت پیدا ہوتی ہے، رسول اکرم ا فرماتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ ’’زاہد‘‘ بنادیتے ہیں اس کے دل میں ’’حکمت‘‘ عطا فرماتے ہیں اور اس کو دنیا کی بیماری اور علاج سے آگاہ کردیتے ہیں۔

سوال:۔زہد کیسے پیدا ہوتا ہے؟

جواب:۔دنیا کے عیبوں اور مضرتوں کو جاننے اور اس کے فنا ہونے کوسوچنے اور آخرت کی لازوال نعمتوں اور فائدوں کو یاد رکھنے سے زہد پیدا ہوتا ہے۔

سوال:۔صبر کسے کہتے ہیں؟

جواب:۔ناگوار بات پر نفس کو جمانا، اس کو سہہ لینا اور آپے سے باہر نہ ہونا اوربرداشت کرلینا صبر ہے۔

سوال:۔صبر کا کیا حکم ہے؟

جواب:۔صبر ایمان کا ایک اہم تقاضہ ہے، رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے صبر آدھا ایمان ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، اے ایمان والو! صبر اور نماز سے سہارا حاصل کرو، صبر کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوسکتی ہے کہ قرآن میں اس کاذکر ستر (۷۰) سے زائد مرتبہ آیا ہے۔

سوال:۔صبر کی فضیلت کیا ہے؟

جواب:۔صبر کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ صبرجنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے، جس شخص کو یہ فضیلت حاصل ہوگئی وہ بڑا خوش نصیب ہے شب بیدار اور صائم الدھر سے اس کا درجہ افضل ہے، اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور ان کا ساتھ دیتے ہیں (اِنَّ اﷲَ مَعَ الصَّابِرِینَ) اللہ کی ساتھ داری صبر کی سب سے بڑی فضیلت ہے۔

سوال:۔صبر کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب:۔صبر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی خواہشات اور نفسانی جذبات کے خلاف چلے جس سے نفسانی خواہشات اور جذبات کمزور ہونگے اور جو کچھ خلاف طبیعت درپیش ہو اس کے بارے میں کوئی شکایت نہ کرے اور یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں میرے لئے کوئی مصلحت رکھی ہے اور اگر کوئی حکم ہو تو اس پر مضبوطی سے قائم رہے، مصیبت ہو تو اس کو ہمت سے سہہ لے اور پریشان نہ ہو۔

سوال:۔شکر کیا ہے؟

جواب:۔جو کچھ طبیعت کے موافق حاصل ہو اس کو اللہ کی نعمت سمجھنا، اس پر خوش ہونا اس کو اپنی حیثیت سے زیادہ جاننا زبان سے اللہ کی تعریف بیان کرنا اور اس نعمت کو صحیح استعمال کرنا شکر ہے۔

سوال:۔شکر کیا حکم ہے؟

جواب:۔شکر ایمان کا تقاضا ہے اور ناشکری کفر ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میرا شکر بجالاؤ اور میری ناشکری نہ کرو۔

سوال:۔شکر کا کیا فائدہ ہے؟

جواب:۔شکر کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے اللہ کی محبت پیدا ہوتی ہے اور اللہ شکر کرنے والے کو خوب نوازتا ہے اور مزید نعمتیں دیتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے، چار چیزیں ایسی ہیں کہ وہ جس کو مل گئیں اس کو دنیا و آخرت کی بھلائیاں حاصل ہوگئیں (۱)شکر کرنے والا دل (۲) ذکر کرنے والی زبان (۳) مصیبتوں پر صبر کرنے والا جسم (۴)اور اپنی ذات اور شوہر کے مال میں خیانت نہ کرنے والی بیوی۔

سوال:۔شکر پیدا کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب:۔شکر پیدا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بار بار سوچا اور یاد کیا جائے اور ہر نعمت کو اس کی طرف سے سمجھاجائے اس سے رفتہ رفتہ محبت پیدا ہوگی اور محبت سے مقام شکر حاصل ہوگا۔

سوال:۔تفویض کیا ہے؟

جواب:۔اپنے لئے کوئی حالت تجویز نہ کرنا اورخود کو اللہ کے سپرد کردینا کہ وہ جو چاہے تصرف کرے تسلیم و تفویض ہے۔

سوال:۔تفویض کا فائدہ کیا ہے؟

جواب:۔تفویض کا فائدہ یہ ہے کہ خود کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا ہے اس سے وہ پریشانیوں سے محفوظ رہتا ہے کیونکہ اپنی طرف سے تجاویز قائم کرلینا پریشانیوں کی جڑ ہے۔

سوال:۔تفویض کا مقام کیونکر حاصل ہوتا ہے؟

جواب:۔تفویض کوحاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی خلاف طبیعت واقعہ پیش آئے تو فوراً یہ سوچے کہ یہ اللہ تعالیٰ کاتصرف اور اس کی تجویز ہے جس میں یقیناًحکمت اور مصلحت ہے اس طرح ناگوار حالات اور واقعات پر سوچتے رہنے سے اپنی طرف سے تجاویز قائم کرنے کا رجحان کمزور ہوتا جائے گا اور مقام تفویض حاصل ہوگا۔

By silsilaekamaliya • Islamic Question and Answer • Tags: Islam Question and Answer, Islam Question Answer Urdu

Jan 8 2015

Islamic Question Answer – 6

Islamic Question Answer – 6

سوال:۔کینہ کا کیا حکم ہے؟

جواب:۔کینہ رکھنا گناہ ہے ناجائز ہے، بہت بڑاعیب ہے، گناہوں کا بیج ہے بخشش میں رکاوٹ ہے۔

سوال:۔کینہ دور کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب:۔اس کو دور کرنے کا طریقہ یہ ہے (۱) جس سے کینہ ہو اس کا قصور معاف کرے (۲)میل جول کرے (۳) تحفہ بھیجتا رہے

سوال:۔دل کو بنانے اور سنوارنے والے اخلاق کون کون سے ہیں؟

جواب:۔دل کو سدھارنے والے اخلاق حسنہ بہت سے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں: (۱)اخلاص (۲) محبت (۳) خوف (۴) رجا (۵) تواضع (۶) زہد (۷) شکر (۸)صبر وغیرہ۔

سوال:۔اخلاص کسے کہتے ہیں؟

جواب:۔کسی بھی بات یا کام کرتے وقت اللہ کے راضی ہونے کا دھیان رکھنا، نفسانی خواہش یا غرض فاسد سے بچنا، اخلاص ہے۔

سوال:۔اخلاص کا کیا حکم ہے؟

جواب:۔اخلاص ہر نیک عمل کی مقبولیت کے لئے شرط ہے اس کے بغیر کوئی بات یا کام عنداللہ مقبول نہیں ہوتا۔

سوال:۔اخلاص کا فائدہ کیا ہے؟

جواب:۔(۱) عمل کا ثواب بہت بڑھ جاتا ہے (۲) کام میں برکت ہوتی ہے (۳) قبولیت عطا ہوتی ہے۔

سوال:۔اخلاص کے حاصل ہونے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب:۔اخلاص یوں حاصل کیا جاسکتا ہے۔ (۱) اپنے اندر سے ریا نکال دے (۲) تکبر ختم کرے (۳) اللہ کو راضی کرنے کا ارادہ کرے (۴)اخلاص والوں کے ساتھ رہے (۵) خوب دعائیں مانگتا رہے۔

سوال:۔محبت کیا ہے؟

جواب:۔طبیعت کا ایسی طرف مائل ہونا جس میں لذت یا پسندیدگی ہو محبت ہے۔

سوال:۔محبت کی کتنی قسمیں ہیں؟

جواب:۔اجمالاً یوں کہہ سکتے ہیں کہ محبت کی دو قسمیں ہیں۔(۱) طبعی (۲) عقلی

سوال:۔محبت طبعی اور عقلی میں فرق کیا ہے؟

جواب:۔محبت طبعی غیر اختیاری طور پر متعلق ہوتی ہے اور محبت عقلی اختیاری ہوتی ہے۔

سوال:۔اللہ سے محبت کے پیدا کرنے کا کیا طریقہ ہے؟

جواب:۔اللہ سے محبت پیدا کرنے کاطریقہ یہ ہے کہ اپنے اوپر اللہ کے کیا کیا انعامات، احسانات ہیں، عطا و بخشش کے معاملات ہیں اس پر غور و فکرکرے اور ان کو صحیح استعمال کرے۔

سوال:۔اللہ کے رسول ﷺ سے محبت کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟

جواب:۔احسانات رسول اکرم ﷺ کو یاد کرے، سیرت نبوی ﷺ کا مطالعہ کرے، عاشقانِ الٰہی اور عاشقان محمدی کے احوال کو بار بار بزرگوں کی زبان یا صحیح کتابوں سے معلوم کرتا رہے اور محبوبان بارگاہ الٰہی سے رابطہ رکھے اور اللہ سے دعائیں کرتا رہے۔

سوال:۔خوف کسے کہتے ہیں؟

جواب:۔اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور آخرت میں عذاب کے اندیشوں کو پیش نظر رکھنا خوف ہے۔

سوال:۔خوف کا کیا حکم ہے؟

جواب:۔خوف ایمان کی شرط ہے اور ایمان کے دو نصفوں میں سے ایک ہے، دنیا میں خدا سے ڈرنے والا آخرت میں بے خوف ہوگا اور مامون رہے گا۔

سوال:۔خوف پیدا کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب:۔اللہ کے قہر وعذاب کو یاد کرے، اللہ نے نافرمانوں کو جو سزائیں دی ہیں قرآن وحدیث کی روشنی میں ان کا مطالعہ کرے، یا علم صحیح رکھنے والوں سے معلوم کرے۔

سوال:۔رجا کی حقیقت کیا ہے؟

جواب:۔اللہ تعالیٰ کی خاص خاص عنایتوں، یعنی رحمت، جنت، مغفرت اور عطاؤں کو حاصل کرنے کی تدبیر اور کوشش کرتے ہوئے ان چیزوں کے انتظار میں دل کو راحت پہنچانا اور پرامید رہنا رجاء ہے۔

سوال:۔رجاء کا مقام کیوں کرحاصل ہوتا ہے؟

جواب:۔اللہ کی رحمتوں، عنایتوں، احسانات کو سوچتے رہنا اور تقاضوں پر عمل کرنے سے مقامِ رجاء ملتا ہے۔

سوال:۔تواضع کسے کہتے ہیں؟

جواب:۔خود کو بلند مرتبہ کا اہل نہ سمجھنا، خود کو ناچیز جاننا اور اپنے کو دوسروں سے کمتر سمجھنا تواضع ہے۔

سوال:۔تواضع کا کیا فائدہ ہے؟

جواب:۔تواضع میں جذب اور کشش کی خاصیت ہے جن دو شخصوں میں تواضع ہوگی ان میں نااتفاقی نہیں ہوسکتی، اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو تواضع اختیار کرے گا ہم اس کو بلندی عطا کریں گے۔

سوال:۔تواضع کیسے پیدا کی جائے گی؟

جواب:۔اپنے اندر تواضع اس طرح پیدا کی جائے کہ اپنے آپ کو سب سے کمتر اور حقیر جانے اللہ تعالیٰ کی کبریائی کو ہر وقت پیش نظر رکھے اور اپنی بے بسی اور محتاجی کو سوچتا رہے۔

سوال:۔توکل کیا ہے؟

جواب:۔ہر کام میں اسباب کے ماتحت کوشش کرتے ہوئے اللہ ہی کو کارساز ماننا اور تمام کاموں میں اسی پر اعتماد کرنا (توکل) ہے۔

سوال:۔توکل کیسے حاصل کیا جائے؟

جواب:۔توکل حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ ہی کو مسبب الاسباب جانے اسباب کو اسباب ہی کے درجہ میں رکھے، اللہ تعالیٰ کی عنایتوں اور وعدوں کا بار بار خیال کرے اور اپنی تمام کامیابیوں کو اللہ تعالیٰ کی کارسازی کا نتیجہ سمجھے۔

By silsilaekamaliya • Islamic Question and Answer • Tags: Islam Question and Answer, Islam Question Answer Urdu

Jan 8 2015

Islamic Question Answer – 5

Islamic Question Answer – 5

سوال:۔حب جاہ سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب:۔جب جاہ سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ یہ خیال دل میں لائے کہ نہ میں رہوں گا اور نہ تعظیم و اطاعت کرنے والے اور یہ آخرت میں سخت تباہی لانے والی ہے۔سوال:۔حرص کسے کہتے ہیں؟جواب:۔دنیاوی مال و متاع کے ساتھ حد سے زیادہ دل کے مائل اور مشغول ہونے کو حرص کہتے ہیں۔

سوال:۔حرص سے کیا نقصان ہے؟

جواب:۔حرص تمام بیماریوں کی جڑ ہے اسی کی وجہ سے تمام جھگڑے اور فساد ہوتے ہیں، اگر حرص نہ ہو تو کوئی کسی کا حق نہیں دباتا۔

سوال:۔حرص کو ختم کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب:۔خرچ کو گھٹانا، تھوڑے پر اکتفا کرنا آئندہ کی غیر ضروری فکر نہ کرنا اور یہ سوچتے رہنا کہ حریص ذلیل ہوتا ہے۔

سوال:۔بخل کیا ہے؟

جواب:۔نیک کاموں میں اور واقعی ضرورت کے موقع پرخرچ کرنے سے رک جانا اور رکاوٹ کا پایا جانا بخل ہے۔

سوال:۔بخل کا سبب کیا ہے؟

جواب:۔بخل کا سبب مال کی محبت اور لمبی لمبی امیدیں ہیں۔

سوال:۔بخل میں کیا خرابی ہے؟

جواب:۔بخل مال کی محبت سے پیدا ہوتا ہے اور مال کی محبت دل کو دنیا کی طرف متوجہ رکھتی ہے اور ذکر و فکر سے غافل کردیتی ہے جس سے اللہ کی محبت کا تعلق کمزور پڑجاتا ہے، بخیل مرتے وقت اپنا جمع کیا ہوا مال دیکھ کر پچھتاتا ہے قیامت کے دن بخیل کا مال آگ کا طوق بناکر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔

سوال:۔بخل سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب:۔اللہ کی دی گئی وعیدوں پر خوف کھائے اور مال خرچ کرنے کی فضیلت اور نتیجہ کو سمجھے وعدوں پر یقین رکھے۔

سوال:۔حسد کسے کہتے ہیں؟

جواب:۔کسی شخص کی اچھی حالت کا ناگوار گزرنا اور یہ آرزو کرنا کہ اس کی یہ اچھی حالت زائل ہوجائے حسد کہلاتا ہے۔

سوال:۔حسد کیسی برائی ہے؟

جواب:۔حسد بخیلی سے بھی کہیں بڑی برائی ہے، حسد حرام ہے اس سے دین اور دنیا دونوں کا نقصان ہے۔ حسدنیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے جس طرح آگ سوکھی ہوئی لکڑیوں کو جلاکر ختم کردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے خزانۂ قدرت سے کسی کو مال، کسی کو علم، کسی کو رتبہ، کسی کو شہرت و مقبولیت اورکسی کو کوئی اور نعمت دیتے ہیں۔ حاسد اس فکر میں لگا رہتا ہے کہ یہ نعمتیں دوسرے شخص کے پاس سے چھن جائیں۔ یہ دوسرے معنوں میں اللہ پر اعتراض ہے کہ یہ چیزیں اس کو کیوں ملیں مجھے کیوں نہیں ملیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے جذبات و احساسات سے اس کا دین اور آخرت تو برباد ہوتی ہی ہے ساتھ میں دنیا کا بھی نقصان ہے۔ حسد کی آگ اس کو اندر ہی اندر گھلادیتی ہے اور رنج و غم میں مبتلا کرتی رہے گی۔

سوال:۔مرض حسد سے بچنے کی تدبیر کیا ہے؟

جواب:۔(۱)جس سے حسد ہو اس کی خوبیاں بیان کریں (۲) اس کے ساتھ احسان کریں (۳) تواضع سے پیش آئیں (۴) سب کی خوشی و غم میں برابر کے شریک رہیں۔

سوال:۔غصہ کی حقیقت کیا ہے؟

جواب:۔کسی سے ناراض ہوکر بدلہ لینے کے لئے طبیعت کا جوش میں آنا غصہ ہے۔

سوال:۔غصہ کا کیا حکم ہے؟

جواب:۔بے محل غصہ حرام ہے غصہ ایمان میں بگاڑ ڈالدیتا ہے، جیسے ایلوا شہد کو بگاڑدیتا ہے، غصہ پینے والے محسن اور خدا کے محبوب ہوتے ہیں، غصہ کے وقت اپنے کو قابو میں رکھنے والے کو حضور ﷺ نے بہادر اور پہلوان بتلایا ہے۔ ویسے غصہ کے مراتب اور درجات کی بہت سی تفصیل ہے یہاں ان تمام تفصیلات کی ضرورت نہیں۔

سوال:۔غصہ کا کیا علاج ہے؟

جواب:۔غصہ کا علاج یہ یاد کرنا ہے کہ ارادۂ خداوندی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا اگر میں نافرمانی کروں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے بھی یہی معاملہ کرے تو کیسا ہوگا اور اللہ تو سب سے زیادہ قدرت رکھنے والے ہیں۔

سوال:۔کینہ کسے کہتے ہیں؟

جواب:۔بدلہ لینے کی قوت نہ ہونے کی وجہ سے دل پر ایک خاص قسم کی گرانی اور بوجھ ہوتا ہے اور دل میں کدورت جم جاتی ہے اس کو کینہ کہتے ہیں۔

By silsilaekamaliya • Islamic Question and Answer • Tags: Islam Question and Answer, Islam Question Answer Urdu

Jan 8 2015

Islamic Question Answer – 4

Islamic Question Answer – 4

سوال:۔حب دنیا کو دل سے کیسے نکالا جائے؟
جواب:۔حب دنیا کو دل سے نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ دنیا کا فانی اور عارضی ہونا بتلایا جائے اور آخرت کی لازوال اور باقی زندگی کو سمجھا یا جائے، موت کی یاد دلائی جائے۔
سوال:۔دل سے تعلق رکھنے والے برے اخلاق کونسے ہیں؟
جواب:۔دل سے تعلق رکھنے والے چند برے اخلاق یہ ہیں (۱) تکبر (۲) ریا (۳)عجب (۴) حسد (۵) غصہ (۶) کینہ (۷)حب جاہ (۸) حب مال (۹)حرص (۱۰) بخل

سوال:۔تکبر کی حقیقت کیا ہے؟

جواب:۔اپنے آپ کو صفات و اعمال میں دوسروں سے بڑھ کر سمجھنا تکبر ہے۔

سوال:۔تکبر میں کیا نقصان ہے؟

جواب:۔تکبر حرام ہے بہت بڑا اور بہت برا مرض ہے تکبر ہی سے کفر پیدا ہوتا ہے اور تکبر ہی کی وجہ سے شیطان گمراہ ہوا۔

سوال:۔تکبر کو کیسے دور کیا جائے؟

جواب:۔اللہ کی عظمت اور بڑائی یاد کرے، اپنی خوبیاں اور کمالات بے حیثیت نظر آئیں اور کے ساتھ تواضع اور تعظیم سے پیش آئیں اور ہر شخص کا اکرام کرے اور اُسے اپنے سے بہتر سمجھے۔

سوال:۔عُجب کیا ہے؟

جواب:۔اپنی خوبیوں کو اپنی ذاتی سمجھنا اور ان کو اپنی طرف منسوب کرنا اور اپنے پاس کے کمالات پر ناز کرنا عجب ہے اس کا دوسرا نام خود پسندی ہے۔

سوال:۔عجب کا کیا حکم ہے؟

جواب:۔عجب بری چیز ہے بچنا لازم ہے۔

سوال:۔عجب کی نشانیاں کیا ہے؟

جواب:۔عجب کی چند نشانیاں اور علامتیں یہ ہیں (۱) اپنی تعریف کرنا (۲) اپنی تعریف کئے جانے کو پسند کرنا (۳) مجمع میں پہلی اور خصوصی جگہ پر بیٹھنا (۴) راستے میں لوگوں کے آگے شان سے چلنا (۵) نصیحت کرنے پر ماننے سے گریز کرنا (۶) دوسروں کو نصیحت کرنے میں سختی کرسے پیش آنا (۷) لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا (۸)خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنا۔

سوال:۔عجب کو دور کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب:۔خود پسندی کو دور کرنے کی تدبیر یہ ہے کہ اپنے پاس نظر آنے والے کمالات اور خوبیوں کو عطائے خداوندی سمجھے اور قرآن کی آیت فلا تزکوا انفسکم پر غور کرے جس میں اپنے کو پاکیزہ بتانے سے منع کیا گیا ہے اور خاص طور پر یہ دھیان رکھے کہ بہتر شخص وہ ہے جو اللہ کے یہاں بہتر ہے اور اللہ کی قدرت کو یاد کرے اور ڈرے کہ کہیں یہ نعمت سلب نہ ہوجاے۔

سوال:۔ریا کیا ہے؟

جواب:۔اپنے علم کا یا اپنے عمل کا ایسا دکھاوا جس کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں اپنی عزت اپنی مقبولیت اور اپنے مرتبہ کی خواہش ہو یہ ریا ہے۔

سوال:۔ریا کی علامتیں کیا ہیں؟

جواب:۔ریا کی بہت سے علامتیں ہیں ان میں سے چند یہ ہیں (۱) اپنی عبادتوں کا چرچا کرنا(۲) اپنے ذِکر کا شہرہ کرانا (۳) تلاوت قرآن پاک کے بارے میں بھی اسی طرح کا جذبہ رکھنا(۴) بغیر بتائے معلوم ہوجانے پر خوش ہونا (۵) کوئی عزت نہ کرے تو غصہ ہوجانا (۶) مجلس میں آنے سے نہ اٹھنے پر غصہ کرنا (۷) برا سلوک کرنے پر دل میں تنگی کا پایا جانا یہ سب باریک باریک علامتیں ہیں۔

سوال:۔ریا کا کیا حکم ہے؟

جواب:۔ریا حرام ہے بلکہ شرک اصغر ہے ، پوشیدہ شرک ہے، چیونٹی کے رینگنے کی سرسراہٹ سے زیادہ دبے پاؤں آتا ہے عبادات کے مقصود کے خلاف ہے۔

سوال:۔ریا سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب:۔جو نیکی کے کام اور عبادتیں اجتماعی نہیں ہیں اس کو پوشیدہ کرنا اوراس کا چرچا نہ کرنا اور یہ سوچتے رہنا کہ یہ چیز اخلاص کے خلاف ہے اور اعمال کو غارت کرنے والی ہے۔

سوال:۔حب جاہ کیا ہے؟

جواب:۔لوگوں کے دلوں کو موہ لینے کی خواہش ہے کہ لوگ اطاعت کریں اور تعظیم کے ساتھ پیش آئیں۔

سوال:۔جب جاہ میں کیا خرابی ہے؟

جواب:۔حضورﷺ کا ارشاد ہے دو بھوکے بھیڑئیے بکریوں کے گلے میں چھوڑدئیے جائیں تو وہ اس گلے (ریوڑ) کو اتنا تباہ نہیں کرتے جتنا آدمی کو حرصِ جاہ اور مال اس کے دین کو تباہ کردیتی ہے۔

By silsilaekamaliya • Islamic Question and Answer • Tags: Islam Question and Answer, Islam Question Answer Urdu

Jan 8 2015

Treatment using name Al-Warith

AL-WARITH

Treatment using name Al-Warith

Shah Abdur Raheem Sahab Dard R.A

Meaning:

The supreme inheritor. The one who has the everlasting ownership of everything.Treatment using name Al-Warith

Number: 707

Ya-Waarith: 718

Effects:

Allah (swt) is the creator of the universe and self exist. Allah is the sole owner of the universe

Treatment:

During Sun rise beginning and ending with Darood Shareef and Reciting “Ya Warith” 718 times, Insha’Allah will be protected from all sorrow and sufferings, Reciting it after Maghrib and Isha’a will protect from perplexity and confusion.

By silsilaekamaliya • 99 Names of Allah • Tags: 99 Names of Allah, Ya Warith

Jan 8 2015

Treatment using name Al-Baaqi

AL-BAAQI

Treatment using name Al-Baaqi

Shah Abdur Raheem Sahab Dard R.A

Meaning:

The eternal. The one who will last forever.Treatment using name Al-Baaqi

Number: 1131

Ya-Baaqee 124

Effects:

By the command of Allah (swt) everything changes with time. everything is bound to end. The cycle of life goes on but every life has death s its destiny. But the ever lasting creator who controls the universe will last forever and ever.

Treatment:

The one who recites ‘Ya-Baaqee’ 1000 times on a Friday night along-with Durud at the beginning and end of the supplication, insha Allah, all his good deeds will be accepted by Allah (swt) and he be safeguarded from distress.

By silsilaekamaliya • 99 Names of Allah • Tags: 99 Names of Allah, Ya Baaqi

Jan 8 2015

Treatment using name Al-Badee

AL-BADEE

Treatment using name AL-Badee

Shah Abdur Raheem Sahab Dard R.A

Meaning:

The one who is incomparable and creates wonders.

Number: 86

Ya-Badee-97

Effects:

The effect of this beautiful virtue of Allah (swt) reflects in all his creatures for e.g. the web of a spider, the nest of Treatment using name AL-Badeebind, the invention of man etc. The creation of the Almighty is itself a wonder and he has designated man as Ashraful Makhlooqat, the best creation.

Treatment:

After performing wadhu (ablution) one who recites ‘Ya Badeeu’ 97 times, will be relieved of misery for the realization of any pursuit

1200 times the following should be recited for 12 days, insha Allah, the pursuit will be realized soon. “Yaa Badee’ al Ajaa’ibi, bil khairi yaa badeeu” (O wonderful deviser of strangethings, ‘O, Deviser!) Reciting ”Ya Badee’u” in distress will insha Allah, provide peace and satisfaction.

By silsilaekamaliya • 99 Names of Allah • Tags: 99 Names of Allah, Ya Badee

«‹ 102 103 104 105›»

Latest Updates

  • Join the Movement to Protect Waqf Properties – Waqf Amendment Bill 2025 April 22, 2025
  • Taleemat Silsila e Kamaliya Live September 2, 2024
  • Teri Shan Kun Fakan Hai – Hamd e Bari Tala – Ammar Asad August 30, 2024
  • Majlis Ehsaan o Sulook – Madrasa Tajweed ul Quran Amberpet May 14, 2023
  • Gathering In Memory of Maulana Kamal ur Rahman Sahab Rahmathullah Alaih May 11, 2023
  • Weekly Majlis Khanqah e Jamaliya May 11, 2023
  • Condolence by Maulana Khaled Saif Ullah Rahmani May 10, 2023
  • Condolence By Maulana Muhammad Ilyas Ghumman May 10, 2023
  • Dars e Hadith – Maulana Shah Mohammed Zilal ur Rahman Sahab May 10, 2023
  • Izhaar e Tashakkur – اظہار تشکر May 10, 2023
Quran Online

Subscribe Mailinglist

Seedha Raasta

Seedha Raasta

Sukoon e Dil

Seedha Raasta

Online Visitors

Free counters!

↑

© Silsila e Kamaliya 2025
Al-Kamal Publications