Islamic Question Answer – 7

Islamic Question Answer – 7

سوال:۔رضا کسے کہتے ہیں؟

جواب:۔اللہ کے فیصلوں (قضاء) پر اعتراض نہ کرنا زبان سے نہ دل سے رضا کہلاتا ہے۔

سوال:۔رضا کیسے حاصل ہوتی ہے؟

جواب:۔ہمیشہ ہر حال میں یہ سوچنا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو چھ پیش آتا ہے اس میں بندے کا ہی فائدہ ہے چاہے اس فائدہ کی حقیقت بندے کومعلوم ہو یا نہ ہو اور شکایت و حکایت سے پرہیز کرنا رضا حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔

سوال:۔زہد کسے کہتے ہیں؟

جواب:۔دنیا کی رغبت کو چھوڑکر آخرت کی طرف متوجہ ہونا زہد ہے۔

سوال:۔زہد کا کیا حکم ہے؟

جواب:۔فکرِ آخرت اور ایمان کی حفاظت کے لئے زہد امر ضروری ہے۔ رسول اکرم ا فرماتے ہیں جو شخص صبح اٹھتے ہی دنیا کی فکر میں لگ جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا دل پریشان کردیتے ہیں، اور اس کو ملتا اسی قدر ہے جتنا اس کی تقدیر میں لکھا جاچکا ہے اور جو شخص صبح اٹھتے ہی آخرت کی فکر میں لگتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا دل مطمئن رکھتے ہیں اور اس کی دنیا کی خود حفاظت و کفالت فرماتے ہیں اور اس نیک بندے کا دل بے نیاز کردیتے ہیں اور اتنی دنیا دیتے ہیں کہ یہ اس سے منہ پھیرتا ہے اور دنیا اس کے پیچھے پیچھے چلی آتی ہے۔

سوال:۔زہد کا کیا فائدہ ہے؟

جواب:۔زہد سے دل میں ایک نور اور بصیرت پیدا ہوتی ہے، رسول اکرم ا فرماتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ ’’زاہد‘‘ بنادیتے ہیں اس کے دل میں ’’حکمت‘‘ عطا فرماتے ہیں اور اس کو دنیا کی بیماری اور علاج سے آگاہ کردیتے ہیں۔

سوال:۔زہد کیسے پیدا ہوتا ہے؟

جواب:۔دنیا کے عیبوں اور مضرتوں کو جاننے اور اس کے فنا ہونے کوسوچنے اور آخرت کی لازوال نعمتوں اور فائدوں کو یاد رکھنے سے زہد پیدا ہوتا ہے۔

سوال:۔صبر کسے کہتے ہیں؟

جواب:۔ناگوار بات پر نفس کو جمانا، اس کو سہہ لینا اور آپے سے باہر نہ ہونا اوربرداشت کرلینا صبر ہے۔

سوال:۔صبر کا کیا حکم ہے؟

جواب:۔صبر ایمان کا ایک اہم تقاضہ ہے، رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے صبر آدھا ایمان ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، اے ایمان والو! صبر اور نماز سے سہارا حاصل کرو، صبر کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوسکتی ہے کہ قرآن میں اس کاذکر ستر (۷۰) سے زائد مرتبہ آیا ہے۔

سوال:۔صبر کی فضیلت کیا ہے؟

جواب:۔صبر کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ صبرجنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے، جس شخص کو یہ فضیلت حاصل ہوگئی وہ بڑا خوش نصیب ہے شب بیدار اور صائم الدھر سے اس کا درجہ افضل ہے، اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور ان کا ساتھ دیتے ہیں (اِنَّ اﷲَ مَعَ الصَّابِرِینَ) اللہ کی ساتھ داری صبر کی سب سے بڑی فضیلت ہے۔

سوال:۔صبر کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب:۔صبر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی خواہشات اور نفسانی جذبات کے خلاف چلے جس سے نفسانی خواہشات اور جذبات کمزور ہونگے اور جو کچھ خلاف طبیعت درپیش ہو اس کے بارے میں کوئی شکایت نہ کرے اور یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں میرے لئے کوئی مصلحت رکھی ہے اور اگر کوئی حکم ہو تو اس پر مضبوطی سے قائم رہے، مصیبت ہو تو اس کو ہمت سے سہہ لے اور پریشان نہ ہو۔

سوال:۔شکر کیا ہے؟

جواب:۔جو کچھ طبیعت کے موافق حاصل ہو اس کو اللہ کی نعمت سمجھنا، اس پر خوش ہونا اس کو اپنی حیثیت سے زیادہ جاننا زبان سے اللہ کی تعریف بیان کرنا اور اس نعمت کو صحیح استعمال کرنا شکر ہے۔

سوال:۔شکر کیا حکم ہے؟

جواب:۔شکر ایمان کا تقاضا ہے اور ناشکری کفر ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میرا شکر بجالاؤ اور میری ناشکری نہ کرو۔

سوال:۔شکر کا کیا فائدہ ہے؟

جواب:۔شکر کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے اللہ کی محبت پیدا ہوتی ہے اور اللہ شکر کرنے والے کو خوب نوازتا ہے اور مزید نعمتیں دیتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے، چار چیزیں ایسی ہیں کہ وہ جس کو مل گئیں اس کو دنیا و آخرت کی بھلائیاں حاصل ہوگئیں (۱)شکر کرنے والا دل (۲) ذکر کرنے والی زبان (۳) مصیبتوں پر صبر کرنے والا جسم (۴)اور اپنی ذات اور شوہر کے مال میں خیانت نہ کرنے والی بیوی۔

سوال:۔شکر پیدا کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب:۔شکر پیدا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بار بار سوچا اور یاد کیا جائے اور ہر نعمت کو اس کی طرف سے سمجھاجائے اس سے رفتہ رفتہ محبت پیدا ہوگی اور محبت سے مقام شکر حاصل ہوگا۔

سوال:۔تفویض کیا ہے؟

جواب:۔اپنے لئے کوئی حالت تجویز نہ کرنا اورخود کو اللہ کے سپرد کردینا کہ وہ جو چاہے تصرف کرے تسلیم و تفویض ہے۔

سوال:۔تفویض کا فائدہ کیا ہے؟

جواب:۔تفویض کا فائدہ یہ ہے کہ خود کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا ہے اس سے وہ پریشانیوں سے محفوظ رہتا ہے کیونکہ اپنی طرف سے تجاویز قائم کرلینا پریشانیوں کی جڑ ہے۔

سوال:۔تفویض کا مقام کیونکر حاصل ہوتا ہے؟

جواب:۔تفویض کوحاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی خلاف طبیعت واقعہ پیش آئے تو فوراً یہ سوچے کہ یہ اللہ تعالیٰ کاتصرف اور اس کی تجویز ہے جس میں یقیناًحکمت اور مصلحت ہے اس طرح ناگوار حالات اور واقعات پر سوچتے رہنے سے اپنی طرف سے تجاویز قائم کرنے کا رجحان کمزور ہوتا جائے گا اور مقام تفویض حاصل ہوگا۔