Maulana Jamal ur Rahman Sahab

Maulana Jamal ur Rahman Sahab

حضرت مولانا شاہ محمد جمال الرحمٰن صاحب مفتاحی مد ظلہ کا اجمالی تعارف

 

پیرِ طریقت، رہبرِ شریعت حضرت مولانا شاہ محمد جمال الرحمٰن صاحب مفتاحی قادری چشتی دامت برکاتہم ریاست تلنگانہ، ہند کے متفقہ بزرگ عالمِ دین ہیں، عوام و خواص میں یکساں مقبولیت کے حامل ہیں، آپ کی سر گرمیوں کا دائرہ نہایت وسیع ہے، کئ ایک دینی مدارس کے سرپرست ہیں، مجلس تحفظ ختمِ نبوت ٹرسٹ اور دینی مدارس بورڈ آندھراپردیش کے صدر، مجلس علمیہ کے رکن عاملہ، مسلم یونائٹیڈ فورم اور اماراتِ ملتِ اسلامیہ کے رکن ہیں، عرفِ عام میں “حضرت شاہ صاحب” سے مشہور ہیں۔Maulana Jamal ur Rahman Sahab
حضرت شاہ صاحب کی ابتدائی تعلیم مغل گِدہ، شاد نگر کے ایک دینی مدرسہ میں ہوئی، اس کے بعد شعبۂ عالمیت کی ایک سال کی تعلیم مدرسہ مصباح العلوم لاتور، مہاراشٹرا میں ہوئی، پھر وہاں سے اعلٰی تعلیم کے لئے مدرسہ مفتاح العلوم، جلال آباد، یوپی کا رخ کیا اور وییں سے سندِ فضیلت حاصل کی۔آپ علومِ ظاہرہ کی تکمیل کے بعد علومِ باطنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ کے والد بزرگوار حضرت شاہ صوفی غلام محمد صاحبؒ (خلیفہ حضرت سید حسن صاحب قادریؒ) سے روحانی سلاسل کے باطنی علوم گھر کی آغوش ہی میں والدِ ماجد کی راست نگرانی میں حاصل کیا اور خلافت و اجازت سے بھی سرفراز ہوئے، حضرت صوفی صاحبؒ کے انتقال کے بعد آپ نے اپنے استاذِ محترم حضرت مسیح الامت مولانا محمد مسیح اللہ خان صاحبؒ سے شاگردانہ تعلق کے ساتھ ساتھ اصلاحی تعلق بھی قائم فرمالیا اور خوب مستفیض ہوتے رہے، یہاں تک کہ حضرت مسیح الامتؒ کے انتقال کے بعد آپ انہی کے خلیفۂ اجل حضرت ڈاکٹر تنویر احمد خان صاحبؒ، پاکستان سے وابستہ ہوگئے اور حضرت ڈاکٹر صاحبؒ سے الحمدللہ حضرت شاہ صاحب کو خلافت و اجازت بھی حاصل ہے، اس طرح حضرت شاہ صاحب کی شخصیت علومِ ظاہری و باطنی میں شمال و جنوب اور سلسلۂ امدادیہ و کمالیہ کا ایک حسین سنگم ہے، یہ سعادت بہت کم ہی کسی کے حصہ میں آتی ہے۔حضرت شاہ صاحب کے خطبات میں امت کی بدحالی پر فکر و کڑھن، اور انداز و اسلوب میں شیرینی و نرمی کا پہلو غالب رہتا ہے، خطبات وجدانی تمثیلات سے بھرپور ہوتے ہیں، نزاعی، اختلافی، اور فروعی مسائل و موضوعات سے بہت محتاط رہتے ہیں اور متفق علیہ عناوین کو موضوعِ سخن بناتے ہوئے مقاصد پر توجہ مرکوز فرماتے ہیں، اس لئے حضرت شاہ صاحب کی بات سب کے لئے اور سب کے نزدیک قابلِ قبول ہوتی ہے، گفتگو میں اکثر تربیت اور اصلاحِ نفس کی باتیں زیرِ بیان رہتی ہیں، حضرت کے خطبات سننے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ دین کی جامع ترین تعبیر کے داعی ہیں جو زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہو، حضرت شاہ صاحب کا احساس ہے کہ دین و اخلاق دراصل قلب و روح اور اندرون میں پائی جانے والی کیفیت کا نام ہے جس کے بغیر دین و اخلاق ایک بے روح ڈھانچہ ہے، اسی اصلاحِ باطن کی مختلف شکلوں کو سلسلۂ قادریہ کمالیہ کی خاص تعلیمات کی روشنی میں پوری وضاحت کے ساتھ پیش فرماتے رہتے ہیں۔حضرت شاہ صاحب کے بیانات و مجالس ریاست و بیرون ریاست میں ہوتے رہتے ہیں، خاص طور پر بڑے اہتمام کے ساتھ ہر جمعرات کو خانقاِ جمالیہ، معین آباد، حیدرآباد دکن میں اور بعد نمازِ جمعہ حضرت شاہ صاحب کے گھر سے متصل مسجد میں اصلاحی مجالس ہوا کرتی ہیں، جن سے طالبانِ علم و معرفت و سالکانِ راہِ طریقت کی ایک بڑی تعداد جو حفاظ و علماءکرام پر مشتمل ہوتی ہے حسب ظرف و استعداد استفادہ کرتی رہتی ہے، حضرت کی زبانِ مبارک میں خالقِ قدرت نے بڑی تاثیر رکھی ہے، سامعین سے اکثر یہ تاثر سناجاتا ہے کہ “میں حضرت سے آج ہی بات پوچھنے آیا تھا اور مجھے میرا مطلوب مل گیا” وغیرہ وغیرہ، جیسا کہ مزا غلاب نے کہا۔
دیکھنا   تقریر  کی  لذت  جو  اس  نے   کہا
میں نے جانا گویا یہ بھی میرے دل میں ہے