Moulana Shah Syed Hassan Sahab

Moulana Shah Syed Hassan Sahab Rahmath ullah Alaih

تعارف حضرت مولانا سید حسن صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ

حضرت کانام سید حسن ہے وطن کرنول ہے قیام بہت دنوں تک چنچل گوڑہ ہائی اسکول کے سامنے مکان میں تھا احقر بہت دنوں تک اسی مکان میں شرف ملاقات حاصل کرتا رہا بلکہ احقر کو حضرت نے خلافت نامہ مہر زد ہ اسی مکان مین عنایت فرمایا تھا اس کے بعد حضرت نے مکان منتقل فرمادیا تھا نئی بس روڈ چنچل گوڑہ سہ راہا سے تقریباً ایک فرلانگ بڑی پھاٹک کا مکان تھا یہ دوسرے مکان میں حضرت نے آخر وقت تک قیام فرمایا غالباً اسی مکان میں حضرت نے وصال فرمایا حضرت کی شدید علالت کی حالت میں بھی احقر نے دو تین مرتبہ اسی مکان میں حضرت سے ملاقات کی تھی دو چار مرتبہ مولوی عبد الواحد صاحب سے بھی یہیں ملاقات ہوئی تھی جو حضرت سے بیعت تھے موصوف کا وطن غالباًگڈی سنگا پور تھا نلگنڈہ روڈپر واقع ہے

Moulana Shah Syed Hassan Sahab

حضرت سید حسن صاحب کا وصال روز یکشنبہ مورخہ ۸ شوال المکرم ۱۳۷۰ ؁ ھ م ۲۶ ؍مارچ ۱۹۶۱ ؁ ء محلہ چنچل گوڑہ میں ہوا تدفین روبرو مسجد بخاری شاہ صاحب سعید آباد ، دائرہ میں ہوئی حضرت کا مزار دائرے کے آخری قبور میں ہے جہاں سے دائرے کی حد ختم ہورہی ہے۔جھونپڑیوں کے قریب حضرت کا مزار ہے پتھر کی چار سلیں بھی ڈال دی گئی ہیں کتبہ نہیں تھا کبھی کبھی زیارت کیلئے حاضر ہو جایا کرتا دو تین مرتبہ احقر پر رقت طاری ہو گئی حضرت کی تدفین میں احقر شرکت نہ کر سکا (غالباً اس وقت احقر کندرک پر کار گذار تھا) ۔

حضرت سید حسن صاحب قبلہ سے احقر کی پہلی ملاقات حضرت مولانا محمد حسین صاحب قبلہ کے مکان میں ہوئی حضرت اس وقت ملک پیٹ کے مکان میں تھے پھر مولانا محمد حسین صاحب دبیر پورہ میں کملی والے شاہ صاحب کی درگا ہ کے قریب کے مکان میں اس وقت حضرت سید صاحب قبلہ کے ساتھ۔جن حضرات سے مولانا محمد حسین صاحب کے مکان میں ملاقات ہوئی ان میں (جگن ناتھ پرشاد)اسلامی نام جمیل احمد ،مولانامناظر احسن گیلانی۔مولانا فضل اللہ صاحب ۔ الیاس برنی صاحب ۔صفوۃ الرحمٰن صاحب ۔عبدالخالق صاحب ۔کرنل غلام احمد صاحب ۔عبدالباری صاحب ۔ ڈاکٹر میر ولی الدین صاحب ،غلام دستگیر رشید صاحب، مولاناغوثی شاہ صاحب ،عبدالقدیر صدیقی صاحب حسرت ،وغیرہ قابل ذکر ہیں یہ حضرات مولانا محمد حسین صاحب کے مکان کو اکثر تشریف لایا کرتے ان حضرات سے احقر کی کبھی کبھی ملاقات ہو جایا کرتی ۔ مولوی غلام جہانگیر صاحب جن کا مولانامحمد حسین صاحب نے عبد الرحمٰن نام رکھا تھا ، حضرت قبلہ سے بیعت کرچکے تھے اور کچھ عرصہ سے حضرت کے مکان ہی میں قیام بھی کیا تھا ان سے بھی ملاقات ہوجایا کرتی ۔ ایک مرتبہ حضرت سید صاحب قبلہ نے احقر کو مشورہ دیا کہ مولانا محمدحسین صاحب قبلہ جیسا آدمی نہیں مل سکتا آپ حضرت سے بیعت کرلیں چنانچہ حضرت کے مشورہ کے ساتھ ہی احقر نے بعمر ۱۸ سال مورخہ ۲۶ رمضان المبارک ۱۳۵۵ ؁ھ شب قدر شب شنبہ مولانا محمد حسین صاحب قبلہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی اس وقت حضرت دبیر پورہ میں مسعود منزل میں تھے حضرت سے کچھ دن ملاقات ہوتی رہی ، اسی گھر پر حاضری ہوتی رہی اور صبح وشام کی بیٹھکوں میں شرکت نصیب ہوتی اور فیوض و برکات کا سلسلہ جاری رہا حضرت مولانا محمد حسین صاحب قبلہ ناظم ونپرتی ؒ کا انتقال مورخہ ۲۲ ربیع الاول ۱۳۶۴ ؁ ھ م ۷ مارچ ۱۹۴۵ ؁ ء بروز پنجشنبہ بنگلہ قریشی صاحب بنجارہ ہلز حیدرآباد میں ہوا ۔ احقر شرکت نہ کرسکا تدفین عقب معظم جاہی مارکٹ دائرہ بغدادی صاحب میں ہوئی قبر کے چار طرف چار پتھر کے سل بچھادئے گئے تھے قبر پر مٹی ڈال دی گئی تھی کتبہ وغیرہ کچھ نہ تھا عرصہ کے بعد حضرت کے صاحبزادہ مولانا مسعودالحسن صاحب نے نام اور تاریخ کا کتبہ لگوایا اب وہ کتبہ موجود ہے ۔

حضرت کی وفات کے بعد اکثر لوگوں نے اور خصوصیت سے احقر نے حضرت سید حسن صاحب قبلہ کی خدمت میں حاضری دینا شروع کردی اور حضرت سے استفادہ شروع کردیا جب بھی موقعہ ملتا حضرت کی خدمت میں حاضر ہوجایا کرتا عبدالواحد صاحب ، ناظم علی صاحب ،واجد علی شاہ صاحب مرید مولانا غوثی شاہ صاحب ، مولانا ضمیر الدین صاحب ،امام وخطیب جامع مسجد نظام آباد ، مولانا جمیل احمد صاحب ، رکن جمیعت العلما ء اندھرا پردیش ، محمد حسین صاحب اظہر منتظم حج میوزیم چنچل گوڑہ مولانا عبدالحق صاحب محبوبنگری معلم ادارہ شرقیہ ، مولانا محبوب حسین صاحب محبوب والد الطاف حسین صاحب کامل جامعہ نظامیہ و امام و خطیب مسجد مرد منور حیدرآباد ۔مولانا عبد الستار صاحب اور بعض دیگر احباب کو احقر نے سید صاحب کی محفل میں بیٹھے ہوئے دیکھا ۔ حضرت سید صاحب کے مکان میں ایک ایسی محفل میں شرکت کا موقع ملا جس میں ڈاکٹر میر ولی الدین صاحب ، جمیل احمد صاحب ، صابر میاں صاحب اور خود حضرت مولانا محمد حسین صاحب تشریف فرما تھے مختلف دنوں میں مختلف احباب کے گھروں میں یہ بیٹھکیں چل رہی تھیں کبھی کسی کے گھر میں اور کبھی کسی کے گھر میں یہ محفل ہوا کرتی تھی کہیں کھارا کہیں بسکٹ کہیں پھل کہیں میٹھا کھایا جاتا اور چائے نوشی ہواکرتی حسب موقع کوئی اپنا حال بیان کرتا دیگر احباب ان پر تبصرہ کرتے یہ تبصرہ حضرت ہی کے سامنے ہوا کرتا ۔حضرت سید حسن صاحب قبلہ لوگوں کے حاضر ہوتے ہی بیان شروع کرتے حسب حال بات شروع ہو جاتی دل کھول کر بیان فرماتے صاف معلوم ہوتا کہ واردات قلبی ہیں مشہور تھا کہ حضرت کے اوپر قرآن کھلا ہوا ہے ۔

اڈیکمیٹ کے محلے میں حضرت کے بیانات ہوئے جامعہ عثمانیہ کے بعض پروفیسر شریک رہے بلکہ صدر شعبہ عربی جامعہ عثمانیہ مولوی عبدالمعید خان صاحب نے بھی حضرت کو سنا خان صاحب کا ایک مقولہ سنا گیا تھا کہ میں نے ڈیڑھ سو سے زائد تفاسیر پڑھیں ہیں لیکن سید صاحب کی قرآنی تفسیر کہیں نظر نہیں آئی ڈاکٹر میر ولی الدین صاحب کے ایک مغربی دوست جو محقق ڈاکٹر اور علوم قرآنی کے ماہر ۔ صرف انگریزی داں حیدرآباد آئے ڈاکٹر میر ولی الدین صاحب نے انکی ملاقات سید صاحب سے کروائی حضرت نے ان سے صرف Iاور مائی MY پر دس منٹ گفتگو فرمائی مغربی محقق صاحب نے یہ فرمایا کہ آج تک میں نے پوری عمر میں کسی ایسے آدمی سے ملاقات نہیں کی بس یہ پہلے آدمی ہیں ۔

جو بھی حضرت سے ملتا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا بہت سے تبلیغی اکا بر بھی حضرت سے ملاقات کرچکے تھے اور حضرت کو سن چکے تھے ان میں مولانا رحمت اللہ صاحب فاضل دہلوئی بھی شریک ہیں ۔

مولانا رحمت اللہ صاحب کو احقر نے سید صاحب کے مکان میں دو تین مرتبہ دیکھا ہے ایک مرتبہ احقر سے سید صاحب نے یہاں تک کہا کہ مولانا رحمت اللہ صاحب پھر آنے کا وعدہ کر گئے ہیں لیکن تشریف نہیں لائے ایک مرتبہ حضرت نے بیان فرمایا کہا کہ اکثر بغیر کسی توجہ کے اشیاء کو دیکھتے ہی قرآنی آیات دل میں اتر جاتی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آفاق وانفس میں قرآن کھلا ہوا ہے تقریباً تمام مسائل میں حضرت سید صاحب کو شرح صدر حاصل تھا آخری زمانے میں حضرت کی بینائی بالکل زائل ہوگئی تھی لیکن رات دن حسب ضرورت بلا تکلف بیت الخلا اور طہارت خانہ آیا جایا کرتے تھے اس سلسلہ میں حضرت نے احقر سے ایک واردات بیان فرمائی ،ارشاد فرمایاکہ رات میں نیند سے بیدار ہوا طہارت خانہ جانا تھا لیکن کدھر جاؤ ں یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا اتنے میں حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ اندھا پن ہی تو میری صفت ہے اتنا کہتے ہی شمعیں روشن ہوگئیں اور اٹھ کر بیت الخلا سے فارغ ہو آیا نمونہ کے طور پر ایک بات اگئی ورنہ معلوم نہیں اور ایسے کتنے واقعات ہوچکے ہیں ایک مرتبہ حضرت کے ساتھ چنچل گوڑہ کے مکان سے مسجد جارہاتھا سرور عالم ا کے معجزہ کا ذکر آیا کہ آپ ؐ جیسے آگے دیکھتے تھے ویسے ہی پیچھے سے دیکھتے تھے اس پر فرمایا کہ حضور ا تو بڑی چیز ہیں یہ بات آنحضور ا کے غلاموں کو بھی حاصل ہے یہ بھی ایک نمونہ کی بات ہے اور نہ معلوم اور کیا کیا غلاموں کو حاصل تھا حضرت ۔ صاحب تو جہ تھے حضرت حیدرآباد میں توجہ فرماتے اور ہم مختلف اضلاع میں اور تعلقات میں محسوس کرتے حضرت قبلہ کے ساتھ احقر نے مندڑی کا دو تین مرتبہ سفر کیا ہے۔

دوران سفر میں ایک مرتبہ مولوی قادر محی الدین صاحب منتظم انجمن خادم المسلمین حضرت سید صاحب سے ونپرتی میں ملاقات کی تھی ملتانی صاحب نے اسی سفر میں حضرت سید صاحب سے ملاقات کی تھی ، احقر بھی ساتھ تھا موصوف نے ایک دن فرمایا تھا کہ ھل من خالق قرآن میں ہے کیا ؟

احقر نے کہا ہاں ہے موجود ہے مولوی ملتانی صاحب کا راستہ ذکر کا راستہ حضرت کا راستہ فکر کا راستہ وہ ذکر کا راستہ اور یہ فکر کا راستہ یہ علم و فکر کا راستہ دوسروں پر حیرت طاری کردیتا ہے ۔

سید صاحب کا پہلا رسالہ ؛ انسان اور قرآن؛ ۴۷ ؂ صفحات کا شائع ہوگیا دوسرا رسالہ ؛ صالحیت ؛ بھی شائع ہو گیا تھا اس کے بعد کسی اور رسالہ کی اشاعت حضرت کی مجھے یاد نہیں ہے حضرت کے صاحبزادہ اسی سال حج وزیارت سے فارغ ہوگئے اور مسجد پلٹن خاص ملک پیٹھ کے مغربی حصہ میں تھوڑا فاصلہ پر اپنے پختہ بنگلہ میں مقیم ہیں احقر اپنی کتاب؛ تبرکات حرمین؛ کی اشاعت کے بعد حضرت کے مکان کو جاکر صاحبزادہ موصوف کی خدمت میں ہدیۃ پیش کیا حضرت نے بڑی خوشی سے قبول فرمایا احقر کی دوسری کتابیں بھی صاحبزادہ موصوف کی خدمت میں پیش کی جا چکی ہیں

حضرت کے خلفاء کے نام حسب ذیل ہیں

۱) صاحبزادہ سید اسد صاحب حیدر آباد
۲) ناظم علی صاحب حیدر آباد
۳)قدرت اللہ صاحب ناگپور
۴)غلام محمد مغل گدہوئی حال مقیم حیدر آباد

سید صاحب قبلہ کی خدمت میں رجوع کے بعد خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا مختلف مقامات سے ہم اپنے احوال لکھتے حضرت ان کے جوابات تحریر فرماتے حضرت کے بہت عارفانہ دلکش اور دلنشین تفہیم ہوتی دل میں اتر جاتی بر د ل ریزد ، واقعہ نفس الامری کا تھا ، تصوف اور سلوک کے بے شمار مسائل بہت آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجاتے ۔
احقر کے پاس حضرت سید صاحب کے بہت سے خطوط محفوظ ہیں اور ان کو چھپانے کا بھی ارادہ ہے اور بہت سے احباب کا تقاضا بھی ہے سید صاحب قبلہ ہومیو پیتھک علاج بھی کرتے تھے احقر نے محمد یحیٰ صاحب کی اہلیہ کے علاج کے سلسلہ میں حضرت سے مشورہ بھی کیا تھا ہومیو پیتھک کے سلسلہ میں حضرت کا مطالعہ بہت وسیع اور گہراتھابہت سے دوا خانوں سے واپس شدہ مایوس مریضوں نے حضرت کے علاج سے حیرت انگیز طور پر شفاپائیحضرت اپنی طرف سے علاج مفت کردیا کرتے اگر کوئی مریض اپنی طرف سے ہدیہ دیتا تو قبول فرما لیتے بعض صورتوں میں مایوس مریض صحت یاب ہوکر احسان فراموش ہوتے ہوئے بھی دیکھے گئے آخری زمانہ میں بصارت کمزور ہونے کے باوجود اندازہ سے علاج فرماتے رہے یا کوئی صاحب موجود ہوتے تو حضرت ان کو گولیاں نکالنے کو فرماتے اور استعمال کا طریقہ بتادیتے ۔حیدرآباد میں ہومیو پیتھک کے سرکاری دوا خانہ کے پرنسپل ڈاکٹر قریشی صاحب تھے حضرت قبلہ کی ڈاکٹر صاحب سے ملاقات تھی حضرت نے ان سے ایک مریضہ کا ذکر کیا اور اپنی تجویز کردہ دوا کا نام سنایا تو معلوم ہواکہ قریشی صاحب پر سناّ ٹا چھا گیا اور حیرت سے سید صاب کا منہ تکنے لگے احقر کے نزدیک یہ علاج الہامی تھا اس قسم کے بہت سے علاج اور بھی ہو سکتے تھے حضرت قبلہ ہومیو پیتھک دوائیں اینکر اینڈ کمپنی کلکتہ سے منگواتے اس وقت ہومیو پیتھک علاج بہت کم رائج تھا حضرت قبلہ کی زندگی کا ایک نمایاں اور اہم پہلو امانت داری تھا اکثر لوگ حضرت کے پاس لاکرامانتیں رکھتے بعض بتا کر رکھتے اور بعض پوشیدہ بھی رکھی جاتیں ۔
( حضرت شاہ صوفی غلام محمد صاحبؒ)

مختصر سوانح حیات ، حضرت، شاہ سید حسن قادری علیہ الر حمہ

حضرت کا اسم مبارک سید حسن اور آپ کے والد محترم کا اسم شریف سید اسد اللہ قادری ؒ تھا حضرت ممدوح ؒ کی ولادت بمقام ادھونی ضلع کرنول بماہ ذیقعدہ ۱۳۱۲ ؁ھ میں ہوئی ۔

آپ کا سلسلہ نسب قادریہ ہے جو حضرت شاہ سید قدرت اللہ قادری ؒ سے چوتھی پشت میں ملتا ہے جن کا مزار موضع بام پور ضلع کرنول میں واقع ہے اور جو حضرت شاہ سید ظہیر لدین قادری ؒ کے صاحبزادہ ہیں جن کا مزارکنکا ل ضلع بیجا پور میں واقع ہے اور جن کا سلسلہ بیسویں پشت میں حضرت سید محی الدین عبدالقادر جیلانی ؒ سے ملتا ہے ۔

حضرت کی ابتدائی تعلیم زیر نگرانی افضل العلماء حضرت سید محبوب پیر حسینی ؒ ہوئی جو حضرت کے حقیقی ماموں تھے والد ماجد کے ساتھ حیدرآباد منتقلی کے بعد حضرت ممدوح کی تعلیم مدرسہ دارالعلوم حیدرآباد میں منشی تک ہوئی جہاں شاہ سید تاج الدین قادری ؒ اور سید احمد حسین ؒ امجد جیسے صوفی فاضل اساتذہ سے استفادہ کا موقع ملا جس کا حضرت ممدوح ذکرفرمایا کرتے تھے حضرت شاہ سید تاج الدین قادری ؒ جو رشتہ میں حضرت کے ماموں بھی تھے بعد میں مدرسہ نظامیہ میں استاد بھی رہے تھے ۔

حضرت کا عقد ۱۳۳۰ ؁ھ میں دختر جناب سید محمد بادشاہ حسینی صاحب سے ہوا جن کا سلسلہ نسب حضرت خواجہ بندہ نواز حسینی ؒ گلبرگہ شریف سے ملتا ہے اسی زمانہ میں والد ماجد نے بیعت و خلافت سے سرفراز فرمایا حضرت نے محکمہ معتمدی فوج میں ملازمت اختیار کی اسی دوران حضرت کے پہلے فرزند شوال ۱۳۳۲ ؁ھ میں تولد ہوئے جن کا وصال تین سال کی عمر ہی میں ہوگیا حضرت کے والد ماجد کا وصال صفر ۱۳۳۳ ؁ ھ میں ہوا شوال ۱۳۳۵ ؁ھ حضرت کے دوسرے فرزند سید اسد اللہ قادری صاحب تولد ہوئے ۔حضرت کی عمر کے چالیسویں سال اسرار حق کا ورود ہوا جسکی تسکین کیلئے اکثر آپ بابا شرف الدین ؒ حضرت یوسف صاحب ؒ و شریف صاحب ؒ اور حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ (گلبرگہ شریف)

کی درگاہوں پر حاضر ہوا کرتے تھے چنانچہ ۱۴ رجب ۱۳۵۱ ؁ ھ روز پنجشنبہ بدرگاہ حضرت سید محمد گیسو دراز ؒ حاضری کے موقع پر یکدم فضل ایزدی ہوا فیض اویسیت کے طور پر یعنی روح پر ایک دم جذبات الٰہی سے ایک جذبہ طاری رہا اسی وقت سے حال بدلا یہ خاص فضل ہوا سببی طور پر رہبری ہوئی رفتہ رفتہ حضرت الحاج مولانا و مرشدنا شیخ محمد حسین صاحب ؒ کی خدمت فیض درجت میں حاضر رہا کرتے تھے ۔

یہاں سے فیض ملا اور سرفرازی ہوئی اور بتاریخ ۲۰ ؍ رجب ۱۳۵۲ ؁ ھ بروز پنجشنبہ بوقت نو ساعت شب بیعت ثانی حاصل کی گئی اس کے بعد مولانا محترم ؒ نے بعد استخارہ بتاریخ ۷؍ محرم ۱۳۵۳ ؁ ھ بروز یکشنبہ خلافت سے سرفراز فرمایا اس سلسلہ میں حضرت کا مقام حضرت غوث الاعظمؒ کے بعد چھبیسواں ہے

اکثر حضرت محمد حسین صاحب قبلہ ؒ کی خدمت میں حاضر رہاکرتے تھے اس طرح تدریسی سلسلہ جاری رہا اس کے علاوہ حضرت محمد حسین صاحب قبلہ ؒ کے خلفاء کی خصوصی مجلسوں میں شرکت ہوتی تھی جن کو بڑے حضرت قبلہؒ کی موجودگی میں بعض مرتبہ حضرت ممدوح بھی مخاطب فرمایا کرتے تھے ان خلفاء میں قابل ذکر جناب محمدیار جنگ قریشی جناب الیاس برنی ڈاکٹر میر ولی الدین اور جناب جمیل الدین احمداور جناب عبدالقادر صاحب ہیں ۔

حضرت ممدوح ؒ ۱۳۵۷ ؁ھ میں بغرض حج و زیارت تشریف لے گئے آپ کی ہمراہی میں جناب محمود یار جنگ قریشی اور ان کی اہلیہ محترمہ بھی تھیں حج سے واپسی کے بعد تیس سالہ مدت ملازمت پوری ہوجانے پر (۵۵) سالہ عمر شریف سے قبل ہی ملازمت سے وظیفہ حاصل کر لیا گیا پورا وقت درس وتدریس میں گذرتا تھا حضرت کی تعلیمات کا خصوصی موضوع ۔۔تفہیمات کلمۂ طیبہ ،، ہواکرتا تھا ہر اتوار کوصبح مولانا جمیل الدین احمد صاحب کی خواہش پر موصوف کے مکان پر جو درس حدیث کی مجلس منعقد ہوتی تھی اس کو حضرت ممدوح ؒ بھی مخاطب فرماتے تھے ۔اکثر مسجد دولہے خان نواب چنچل گوڑہ میں حضرت کا بیان ہوتا تھا ہر جمعرات مخصوص ہمعصر خلفاء کی مجلسیں بعد نماز مغرب منعقد ہوا کرتی تھیں جن کو خاص طور پر حضرت ممدوحؒ مخاطب فرمایا کرتے تھے بینائی کی کمزوری کی وجہ سے اتوار کی محفل گھر پر منعقد ہونے لگی ہر پنجشنبہ بعد ظہر مستورات کو بھی حضرت ممدوحؒ مخاطب فرمایا کرتے تھے معتقدین کی کثیر تعداد ان مجلسوں میں شریک ہوا کرتی تھی ۔

حضرت کے قابل ذکر خلفاء یہ ہیں

(۱)جناب صوفی غلام محمد صاحب (مغل گدہ)
(۲)جناب سید عبدالجبار صاحب (۳)جناب قدرت اللہ صاحب ۔
(۴)جناب سید ناظم علی صاحب (۵)جناب سید عبدالقیوم صاحب
(۶)جناب سید امین الدین صاحب حسینی

اس کے علاوہ خصوصی استفادہ کرنے والوں میں ڈاکٹر عبد المعید صاحب صدر شعبہ عربی عثمانیہ یونیورسٹی ۔

جناب سید تقی الدین صاحب معتمد ۔جناب سید علی ہاشمی صاحب نائب معتمد

جناب غوث محمد خان صاحب ۔جناب مولانا شریف حسین صاحب کانپوری

جناب حامد علی صاحب ۔۔جناب عبد السمیع صاحب

جناب حبیب محمد صاحب گتہ دار۔جناب پروفیسر شیخ نصیب خان صاحب ۔ بھی ہیں

حضرت ممدوح ؒ نے بارہ ۱۲ ؍ ربیع الاول ۱۳۷۷ ؁ ھ کو اپنے فرزند ارجمند جناب سید شاہ اسد اللہ قادری صاحب کو بیعت و خلافت سے سرفراز فرمایا ۔

حضرت ممدوح ؒ کا انتقال ۸؍ شوال ا لمکرم بروز یکشنبہ ۱۳۸۰ ؁ ھ کو صبح ساڑھے پانچ بجے ہوااور روبرو مسجد بخاری ؒ سعید آبادمیں تدفین عمل میں آئی ۔

انا ﷲ وانا الیہ راجعون