Silsila e Kamaliya
Teachings of Islam, Iman and Ehsan
  • Home
  • Introduction
  • Mamulaat
  • Taleemat
  • Bayanaat
  • Books
  • Hamd o Naat
  • Shajrah
  • Biography
  • Dua
  • Contact

Jan 13 2015

Aqwal e Zareen – Uwais Al Qarni

Aqwal e Zareen – Uwais Al Qarni Rahmath Ullah Alaih

حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ اگرچہ حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی نہیں تھے، لیکن آپ کا رتبہ بہت اونچا تھا، آپؒ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے از حد محبت رکھتے تھے، جنگ احد میں جب نبی کریم ﷺ کے دو دندانِ مبارک شہید ہوگئے تو آپؐ کی محبت میں حضرت اویس قرنیؒ نے اپنے تمام دانت توڑدئے کہ نہ جانے سرکارِ دو عالمؐ کا کونسا دانت شہید ہوا ہوگا، آپؒ یمن سے تعلق رکھتے تھے اور آپ کا ذریعہ معاش شتر بانی تھا۔

آپ کے نصیحت آموز اقوال ملاحظہ ہوں:

(۱) بلند مرتبہ تواضع سے پیش آنے میں ہے۔Aqwal e Zareen - Uwais Al Qarni

(۲) لوگوں کی خیرخواہی کروگے تو وہ تمہیں اپنا سردار مانیں گے۔

(۳) سچ بولوگے اور نیت و فعل بھی ٹھیک رکھوگے تو جوان مرد سمجھے جاؤگے۔

(۴) فخر اس میں ہے کہ اپنے تھوڑے مال پر قناعت کرو اور دوسروں کے مال پر نیت نہ رکھو۔

(۵) اپنی صلاحیتیں حقانی اور صحیح طریقوں پر استعمال کروگے تو اعلیٰ خاندانی رتبہ سے زیادہ عزت پاؤگے۔

(۶) جو کچھ تمہارے پاس موجود ہے اس پر مطمئن رہنے کی کوشش کرو تو با عزت ورنہ ذلیل۔

(۷) اگر جد و جہد کرتے ہوئے کامیابی کو صرف اللہ سے چاہو گے تو یقیناً عوام الناس سے بے پرواہ ہوجاؤگے اور یہی حقیقت میں استغناء ہے۔

(۸) اگر انسان اللہ پر بھروسہ نہ کرے اور عبادت فرشتوں جتنی کرے تو اللہ کے ہاں قبولیت نہ ہوگی۔

(۹) جو چیز تمہارے لئے اللہ نے کی ہے (خواہش) تم اس سے فارغ اور بے خوف ہوجاؤ تاکہ تمہاری عبادت میں کوئی مخل نہ ہو۔

(۱۰) جو شخص اچھا کھانے، اچھا پہننے اور امیروں کی صحبت کی خواہش دل میں رکھتا ہے اس سے دوزخ زیادہ دور نہیں ہے۔

(۱۱) نماز میں خشوع یہ ہے کہ ایسی بے خبری کہ اگر اس پر نیزہ مارا جائے تو تکلیف محسوس نہ ہو۔

(۱۲) میں صبح سوکر اٹھتا ہوں تو مجھے شام تک زندہ رہنے کی امید نہیں ہوتی۔

(۱۳) ضروریاتِ زندگی کو محدود کروگے تو خوش رہوگے۔

(۱۴)اللہ کی کتاب ، رسول کی سنت اور صالح مؤمنین کی صحبت کو لازم پکڑ و ۔

(۱۵)کسی کے لئے پسِ پشت دعا کرنا اس کی زیارت و ملاقات سے افضل ہے ۔

بہ شکریہ انوارِ اسلام

By silsilaekamaliya • Aqwal e Zareen • Tags: Aqwal e Zareen

Jan 13 2015

Aqwal e Zareen – Maruf e Karkhi R.A

Aqwal e Zareen – Maruf e Karkhi R.A

حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ

حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ بہت بلند پایہ ولی اللہ گذرے ہیں، آپ کی پیدائش ایک عیسائی گھرانے میں ہوئی، جوان ہوئے تو اپنے آبائی مذہب متنفر ہوکر گھر کوخیر باد کہہ دیا اور تلاشِ حق میں سرگرداں ہوگئے، بالآخر حضرت امام علی بن موسی رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق  پر اسلام قبول کیا اور اسلامی تعلیمات سےبہرہ ور ہوئے، بعد ازاں اپنے والدین کو بھی مشرب بہ اسلام کیا، آپ کا تصوف اور طریقت میں بہت بلند مقام ہے جو کہ آپ نے بہت سخت مجاہدے اور ریاضت کے بعدحاصل کیا، آپ کے ہزاروں مریدین با اخلاص میں سرّی سقطیؒ جیسے ولئ کامل بھی شامل تھے۔

آپ کے ملفوظات ملاحظہ فرمائیں:

(۱) عقلمند وہ ہے کہ جب اس پر کوئی مصیبت نازل ہو تو اول روز وہی کرے جو تیسرے روز کرے گا۔Aqwal e Zareen – Maruf e Karkhi R.A

(۲) خلق سے دور رہنے سے انسان دنیا کی تکلالیف سے بچتا ہے۔

(۳) وہ بستی جو کبھی ویران نہ ہو عدل ہے۔

(۴) وہ تلخی کہ جس کا آخر شیرینی ہو صبر ہے۔

(۵) وہ شیرینی جسکا آخر تلخ ہو شہوت ہے۔

(۶) وہ بیماری جس سے لوگوں کو بھاگنا چاہئے عیش و عشرت ہے۔

(۷) درویشی یہ ہے کہ کسی چیز پر طمع نہ کرےجب بے طلب کوئی لائے تو منع نہ کرے اور جب لے لے تو جمع نہ کرے۔

(۸) بغیر اچھے عمل کئے ہوئے جنت کی آرزو گناہ کے مترادف ہے۔

(۹) سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صحیح عمل کئے بغیر شفاعت کی امید غرور کے سوا اور کچھ نہیں۔

(۱۰) اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے بغیر اللہ کی رحمت کا امیدار ہونا صرف جہالت اور حماقت ہے۔

(۱۱) جواں مرد وہ ہے جو وعدہ نبھانے والا ہو وعدہ تو ڑنے والا نہ ہو۔

(۱۲) مومن کی پہچان یہ ہے کہ اس کی تعریف کرے جس نے اس سے کبھی احسان کا سلوک بھی کیا ہو۔

(۱۳) مسلمان کو چاہئے کہ بغیر مانگے حاجت مند کی حاجت پوری کرے اور اس کے مانگنے سے پہلے بخشش کرے۔

(۱۴) محبت تعلیم و تربیت سے نہیں بلکہ عطائے حق سے حاصل ہوتی ہے۔

(۱۵) اپنی زندگی کو مختصرخیال کرو اور نیک اعمال کی طرف توجہ مرکوز رکھو۔

(۱۶) اللہ پر توکل رکھو تاکہ تمہارا نفس تمہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔

(۱۷) تم اللہ سے چیزیں طلب کرو اور اس بات کا احساس پیدا کرو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔

(۱۸) طالبِ دولت کبھی راحت نہیں پاسکتا۔

(۱۹) دین اور حق بات کے بغیر کی جانے والی گفتگو لاحاصل اور باعث گمراہی ہے۔

(۲۰) کھلا شرک یہ ہے کہ غیر اللہ کی عبادت کی جائے اور چھپا ہوا شرک یہ ہے کہ غیر اللہ پر بھروسہ کیا جائے۔

(۲۱) نیک عالم وہ ہے جو کسی سے بھی ملے اُسے اپنے سے برتر خیال کرے، خواہ وہ برا ہو یا چھوٹا، عالم ہو یا جاہل، مسلمان ہو یا کافر۔

(۲۲) شیطان کو بخیل مسلمان اچھا اور گناہگار سخی بُرا لگتا ہے۔

(۲۳) مومن وہ ہے جو اللہ کے نام پر دھوکہ کھا جائے۔

(۲۴) دولت مندوں کی دوستی سے بچو! یہ دین سے دور کردیتی ہے۔

(۲۵) صحیح اعتقاد کے بغیر عبادت فضول ہے۔

(۲۶) اگر بدعتی شخص تم کو ہوا پر چلتا ہوا بھی نظر آئے تو فریب نہ کھاؤ۔

(۲۷) محبت سیکھنے اور سکھانے والی چیز نہیں بلکہ اللہ کی عطا ہے۔

(۲۸) رنج و الم صرف مومنوں کی آزمائش ہوتے ہیں۔

By silsilaekamaliya • Aqwal e Zareen • Tags: Aqwal e Zareen

Jan 13 2015

Aqwal e Zareen – Imam Ghazali R.A

Aqwal e Zareen – Imam Ghazali R.A

امام ابو حامد محمد بن غزالیؒ(م:۵۰۵ھ)

حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے صاحبِ علم و عمل اور صاحبِ عقل و دانش تھے اور بڑے پیشوائے دینِ اسلام تھے، دیگر علوم متداولہ کے علاوہ علوم فلسفہ میں ید طولیٰ رکھتے تھے اور اسلامی اصولوں کے فلسفہ بیان کرنے میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے۔

آپ کے چند پُر حکمت و ناصحانہ اقوال و ملفوظات بغور ملاحظہ فرمائیں:aqwal e zareen - Imam Ghazali R.A

1. لوگوں کی نیکیوں کو ظاہر کرنا چاہئے اور برائیوں سے چشم پوشی لازم ہے۔

2. خود کو بڑانہ سمجھنا چاہیے،حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصیت ہے،کیونکہ دراصل بڑائی اسی کو سزا وار ہے۔

3. جب تک آنکھوں کی حفاظت نہ کی جائے فسق و فجور سے بچنا دشوار ہے۔

4. دوست جو صرف تمہاری اچھی حالت کا دوست ہو اور مشکل وقت میں کام نہ آئے اس سے بچنا چاہئے ؛کیونکہ وہ سب سے بڑا دشمن ہے۔

5. قرض کی ادائیگی کی طاقت رکھتے ہوئے ایک ساعت بھی دیر کرنا ظلم ہے البتہ اگر قرض خواہ کی اجازت ہو تو جائز ہے۔

6. گری ہوئی چیز کا بغیر اطلاع قبضے میں کرلینا، لوٹنے کی مانند ہے۔

7. خواہش پر غالب آنا فرشتوں کی صفت ہے اورخواہش سے مغلوب ہونا جانوروں کی۔

8. اکثر تاخیر نکاح بھی سبب زنا بن جاتی ہے اور وبال والدین پر ہوتا ہے۔

9. بچوں کی اصلاح مکتب میں ہے اور عورتوں کی گھرمیں۔

10. اگر کوئی شخص قرض لے اوردینے کی نیت نہ ہو تو چور ہے۔

11. بیوی کی بد اخلاقی پر صبر کرنا، اس کی ضروریات کا انتظام کرنا اورراہ شرع پر قائم رہنا بہترین عبادت ہے۔

12. عورت کے ساتھ نیک خورہناچاہیے،اس کو رنج نہ دے ؛بلکہ اس کا رنج سہے۔

13. جو شخص مال کافی رکھتا ہو، اس کے لئے کسب کرنے سے عبادت بہتر ہے۔

14. جو شخص حرام کھاتا ہے اس کے تمام اعضا گناہ میں پڑجاتے ہیں۔

15. لوگوں کے دلوں میں عزت و منزلت پیدا کرنے کے لئے دکھاوے کے طورپرنیک خصلتیں اختیار کرنا ریا ہے۔

16. جو کچھ اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا اس کی تعمیل کرنے سے اور جن کاموں سے اللہ نے منع فرمایا ہے اس سے بچنے کا نام تقویٰ ہے۔

 

By silsilaekamaliya • Aqwal e Zareen • Tags: Aqwal e Zareen

Jan 10 2015

Wahdat ul Wajood

Wahdat ul Wajood

علم الٰہیات کا اہم سبق ۔وحدۃ الوجودWahdat ul Wajood

حضرت مولاناشاہ محمد کمال الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم

مرتبۂ ذات

موجود حقیقی باری تعالیٰ کی ذات ہے ۔اسکے علم میں جن چیزوں کا ثبوت پایا جاتا ہے وہ موجود اضافی کہلاتے ہیں ۔اوروہی چیزیں خارج میں آسکتی ہیں ۔مثلاً آپکی ایک ذات ہے جو حقیقت میں موجود ہونے کی بنا پر موجود حقیقی کہلاتی ہے ۔آپ کے تصور میں ایک حسین صورت معہ اپنے لوازمات کے نمودار ہوتی ہے ۔اسطرح اسکا علم میں نمو دار ہونے کو ثبوت کہتے ہیں ۔آپ کی ذات اور اس حسین چہرے کی ذات دونوں اگرچہ کہ الگ الگ ہیں مگر ااپ کی ذات ہونے کی وجہ سے وہ ذات آپ کے علم میں ظاہر ہوئی ورنہ کبھی ظاہر نہ ہوسکتی تھی اس لئے وہ اضافت میں آنے کی وجہ سے موجود اضافی کہلائی خارج میں آنے سے پہلے اس کو ثبوت علمی کہتے ہیں آپ جب اس تصویر کو کاغذ پر اتاریں گ تو اسکو موجود فی الخارج ہونا کہنگے ۔اور جو چیز ثبوت علمی نہ ہو اسکی کوئی حقیقت نہیں وہ ہمیشہ مسلوب رہتی ہے پھر اسکو عدم اضافی بھی کہنا غلط ہے ۔عدم نہیں کو کہتے ہیں جو ضد ہے وجود کی جب وہ وجود ہی نہیں ہےتو عدم کا کوئی مقام ہی نہیں ہے اور جو چیز علم الٰہی میں ثابت ہو وہ کبھی مسلوب نہیں ہوسکتی ۔ہر وہ چیز جو علم میں آئے اسکو معلوم کہتے ہیں اور مخلوق کی صورتوں کا علم میں آنا صور علمیہ اور اعیان ثابتہ کہلا تا ہے ۔

صور علمیہ اور اعیان ثابتہ

مثلاً آپ کے علم میں جو حسین چہرہ آیا اسکو صور علمیہ یا اعیان ثابتہ کہیں گے اس چہرے کی تفصیلات کو جو آپ کا جانتا پن ہوا یعنی وہ چہرہ گوراہے یا کالا ۔وہ کتنے دن تک باقی رہیگا ۔اس کے چہرے پر کب خراش آئے گی یہ سب تفصیلات کا جو آپ کو علم ہے وہ معلوم کہلاتا ہے ۔

عدل اور فضل

لہٰذا باری تعالیٰ اعیان ثابتہ کے میلانات ،لوازمات اور ان کے اقتضاآت کو ان کی تخلیق سے قبل جانتا ہے جب کہ علم میں ثابت ہوئے ۔اعیان ثابتہ علم الٰہی میں ثابت ہونے کے باوجود خارج میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ان کو خارج میں لانا یعنی تخلیق کرنا مرضیء الٰہی پر موقوف ہے وہ چاہے تو انہیں خلق کرے یا نہ کرے اسکے باوجود اس نے جو خلق کیا وہ اسکا فضل کہلایا ۔ پھر علم الٰہی میں جس طرح وہ ثابت ہوئے اس میں کسی قسم کی کمی بیشی کئے بغیر جوں کا توں تخلیق کرنا باری تعالٰی کا عدل کہلایا ۔

فیض اقدس اور فیض مقدس

اعیان ثابتہ کے ذوات وحقائق علم حق میں نمایاں ہونے کو فیض اقدس کہتے ہیں ۔اس میں ذات اور حقیقت کا چونکہ میل نہیں ہوتا اسلئے اسکو جعل بسیط کہتے ہیں ۔
اعیان ثابتہ کے ظہور کیلئے ان کی ذات سے حقیقت کا اقتران ہونا ضروری ہے جب وہ دونوں مل جاتے ہیں تب وہ موجود فی الخارج ہوجاتے ہیں اسلئے اسکو جعل مرکب کہتے ہیں ۔  ذات اور حقیقت کو ملاکر موجود فی الخارج کرنا فیض مقدس کہلاتا ہے ۔ باری تعالٰی اپنے علم میں اگر کسی شئی یا اسکی اقتضاکو پیدا کرے جسکا ثبوت اس کے علم میں نہ ہو توا یسی صورت میں باری تعالٰی پر دو قسم کے الزام عائد ہونگے ۔ایک ظالم دوسرے جاہل ہونے کے ۔جہل اسلئے کہ پہلے اسکو نہیں جانتاتھا بعد میں جان کر اسکو پیداکیا۔اور ظالم اسلئے کہ جسکی جیسے چاہا صورت بنادی۔ کسی کو فقیر بنادیا ۔تو کسی کو امیر۔باری تعالٰی کی ذات ان تمام چیزوں سے پاک ہے ۔
ظلم و جہل اسکی صفات نہیں وہ نقائص سے منزہ ہے ہر شئی علم الٰہی میں ثابت ہوئی بے جعل جاعل ہے۔
کائنات کو بنانے سے پہلے ہر شئی علم الٰہی میں ثابت ہوئی جب باری تعالٰی ان کو موجود فی الخارج کرنا چاہاتو اس چاہت ہی سے یعنی (کن)کے ساتھ (فیکون) ہوگئی [یعنی بن گئی]

حادث دہری و حادث زمانی

کائنات کا بنتا پن دو طرح پر ہے ۔وہ چیزیں جو کن کے ساتھ ہی دفعتاً اپنے پورے کمال کے ساتھ پیدا ہو گئیں ۔وہ حادث دہری کہلاتی ہیں ۔عالم اروح اور عالم مثال حادث دہری ہیں جو ،،کن،، کے ساتھ ہی پیدا ہو گئے ۔البتہ جو چیزیں تدریجاً آہستہ آہستہ کمال کو پہنچنے والی ہیں وہ حادث زمانی کہلاتی ہیں ۔
حق سبحانہ تعالیٰ نے ،لا الٰہ الا ھو خالق کل شئی ، فرماکر اپنی شان الٰہیت کو صاف طور سے بندوں کو سمجھا دیا۔ کہ ،،الٰہ،، کہلانے والی ذات کے کیا کیا اعتبارات ہیں وہ کاملہ صفات سے کیسے متصف ہے کتنا   وہ صاحب قوت اور نافع و ضارہے یہی نہیں بلکہ بندوں کی حاجتوں کو پورا کرنے والا یعنی حاجت روابھی ہے ۔جب یہ معلوم ہوگیا کہ الٰہیت کیا ہے لیکن اتنا جاننا ہی کافی نہیں کیونکہ کلمۂ طیبہ میں الٰہیت کے ساتھ ساتھ رسالت کا بھی بیان ہے جسکا جاننا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ الٰہیت کو جاننا ہے۔ جب تک کہ رسالت کو نہ سمجھیں دونوں مراتب کی تمیز نہ ہوگی ۔ تنزیہ اور تشبیہ کا فرق معلوم نہ ہوسکے گا۔
اس کے علاوہ نفی و اثبات بھی تو کرنا ہے ،اس میں بھی دشواری ہوگی ،غیریت کو سمجھے بغیر نہ تو اسکی نفی کرسکو گے اور اثبات کرنا بھی مشکل ہوگا ، مشکل کیا بلکہ صحیح نہ ہوگا ،ایسی صورت میں ایمان کی سلامتی خطرہ میں پڑجائے گی ۔ مثلاً زید میں کچھ برائیاں ہیں وہ چاہتا ہے کہ اپنی برائیوں کو دور کردے لیکن اپنی برائیوں پر اسکی نظر ہی نہیں پڑتی وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ مجھ میں کیا برائی ہے ۔بغیر اپنی برائیوں سے واقف ہوئے اگر وہ یہ کہدے کہ میں نے اپنی برائیوں کو دور کردیا تو اسکا ایسا کہنا غلط ہوگا ۔وہزندگی بھر اپنی برائیوں کو دور نہ کر سکے گا ،جس وقت وہ اپنی برائیوں سے واقف ہو جائے گا تب آن واحد میں ان کو دور کر سکتا ہے ۔ اسی طرح مرتبہ الٰہیت ورسالت میں جو غیریت پوشیدہ ہے جب تک بندہ اس سے واقف نہ ہو جائے اسکو دورنہیں کر سکتا غیریت کو دور کرنا ہی نفی ء غیریت کہلاتا ہے ۔ جب اسکا نفی کرنا ہی درست نہ ہوا تو اثبات کب صحیح ہو سکتا ہے لھٰذا ان دونوں کی غیریت سے واقف ہونے کیلئے مرتبہ رسالت کا جاننا بے حد ضروری ہے ؛۔

دل کے ناقص علم کو باہرنکالو کامل یقین کے ساتھ جواں مردی سے قدم آگے بڑھاؤ ۔کفر۔و الحاد کی گرد کو جھٹک دو ،ظلمت جہل کو ہٹاکر ایمانی انوار سے مالا مال کر لو ہمت نہیں تو یہ حجابات اٹھانے سے پہلے خود کو تیار کرلو جن حقائق کو بیان کیا جا رہا ہے انکو برداشت کرلو ۔

وجود ؟ اقسام !

۱) وجود ذاتی (۲)وجود ذہنی (۳) وجود اضافی (۴) وجود حسی وغیرہ ۔

ہر شئی کے دو ؂ رخ ۱؂ ایک تعین ۲؂ دوسرے لا تعین

ایک کو رنگ ۔دوسرا بے رنگ ۔ایک کو شکل ۔دوسرا بے شکل۔ایک کو صورت دوسرے بے صورتی ایک میں کیف دوسرابے کیف ایک مقید دوسرے مطلق بلکہ قید اطلاق سے آزاد ایک کو صورت دوسرے بے صورت ایک ظاہردوسرا حقیقت ایک فانی دوسراباقی ایک حادث دوسرا قدیم ایک موجود با تعارض دوسرا موجود با الذات ایک ممکن الوجود دوسرا واجب الوجود،وجود؟ ہست ہے پن ! جس پر آثار مرتب ہوتے ہیں یعنی نہیں سے ہونا !وہ قوت جو شئی کو موجود کرتی ہے وجود ایک ہی ہے جو مختلف تعینات کی صورت میں جلوہ گر ہے۔

جب فعل رب کے لئے ہے تو عبد کیلئے انفعال کا کسب ہے اس فعل اور کسب میں فرق کرنا ضروری ہے چونکہ رب ہی فاعل ہے لھٰذا اسی سے مدد چاہنا ضروری ہے اسی کو استعانت کہتے ہیں ۔

استعانت کے پانچ ۵؂ طریقے خصوصی ہیں اس موقع پر ایک ایک عمل و حا ل اور ایک ایک حکم متعلق ہے ۔

(۱) حالت گناہ (۲) ضرورت (۳) معاملات (۴) نعمت (۵) مصیبت

گناہ والی حالت میں توبہ واستغفار کرنا ہے ۔

دوسری حالت ضرورت میں دعا کا حکم ہے ۔

تیسری حالت معاملہ کی ہے جس میں توکل کا حکم ہے۔

چوتھی حالت نعمت والی اس حالت میں شکر بجا لائے ۔

پانچویں حالت مصیبت کی ہے اس میں صبر کرے ۔

توبہ کرنے سے دائرۂ نعمت میں ! ضرورت میں دعاء کرنے سے دائرۂ نعمت میں !معاملہ میں توکل کریں تو دائرۂ نعمت میں اور نعمت میں شکر کریں تو نعمت ہے ہی !اور مصیبت و آزمائش میں صبر کریں تو دائرۂ نعمت میں متبد ل ہو جاتے ہیں ! خصوصاً ….

(ان اﷲ مع الصابرین ) (ان اﷲ یحب الصابرین )(وکان حقاً علینا نصر المؤ منین)

(ذالک بان اللہ مولی الذین آمنو ا وعلیٰ ربھم یتوکلون)

انعاما ت باری

(۱) معیت ذاتی (۲) محبت الٰہی (۳) تائید و نصرت (۴) مولائیت

یہ تمام امور اربعہ اور چار نسبتیں صبر سے مل جاتی ہیں ۔

اصل تمام موجودات میں وجود ہے اور وجود عقلی طور پر دو قسموں میں منقسم ہے ایک وجود عین ذات ہے ۔اور دوسرا وجود زائد بر ذات ہے اور اسی وجود کا موجود سے انفکاک ہوتا ہے ۔اور دوسرا وجود موجود سے انفکاک اور جدائی باطل اور ناجائز ہےاور عالم کا وجود موجود سے الگ ہونا ممکن ہے اور حق کا وجود ہی ذات ہے اور ذات ہی وجود ہے جدائی نہیں وہ وجود وجود اصل ہے بالذات ہے وجود حق ہے بالکل بر حق ہے یہ قائم خود بخود ہے قائم بہ خود ہے ۔اور دوسروں یعنی غیر اللہ کا وجودزائد بر ذات ہے ممکنات کا ہے ممکن الوجود ہے عالم فی حد ذاتہہ عدم ہے نیست ہے قائم بالغیر ہے اور حق تعالیٰ کا وجود قائم بالذات ہے اور مقوم ہے اور وہ بھی ممکن ہوا تو تسلسل لازم آتا ہے جو باطل ہے

الا کل شئی ما خلل اﷲ باطل

حقیقت حق وجوب ،ہست وجود ،خود بخود ، قائم بہ خود ، دوسرے کو قیام بخشتی ہے اسکا نام قیوم ہے اسکی صفت قیومیت ہے خود سے ہے اور دوسروں کو قیام بخشتی ہے ، وجود کو نیست ہونا نہیں ،عدم نہیں ،ہمیشہ ہست ہر آن ہے اسکی ذات حی وقیوم ہے ، مرجع حیات و قیام رکھتی ہے، وہ بے شمار کمالات رکھتی ہے،
کمال حیات ،کمال علم ، کمال ارادہ ، کمال قدرت ، کمال سماعت ، کمال بصارت ، کمال کلام ، سے موصوف ہے اس کے کمالات میں نقص و زوال کا گذر نہیں ،

واجب وممکن

وجود کی دو قسمیں ہیں ۱؂ واجب الوجود ۲؂ ممکن الوجود

واجب الوجود وہ ہے جو قائم بخود یعنی اپنے آپ قائم ہو ،اور اس کے لئے دوام ہو وہ وجود وجود حق ہے ، یعنی خدا کی ذات وصفات واجب الوجود اور اپنے ہی سے قائم ہے وہ قدیم ہے دائم ہے ،  اور ممکن الوجود وہ ہے جو قائم با لغیر ہو جس کا ہونا نہ ہونا برابر ہو وہ کبھی ہو اور کبھی نہ ہو اس مضمون کو یوں سمجھ سکتے ہیں ۔

جو شئی وجود صرف واجب اسے کہو

ممکن کی یہ صفت کبھی ہو کبھی نہ ہو

اس لئے یہ عالم فانی ہے حادث ہے مخلوق ہے مملوک ہے محکوم ہے ،مربوب ہے مخلوق میں تعین ہے حق لا تعین ہے مخلوق میں صورت ہے حق تعا لیٰ بے صورت ہیں مخلوقات میں تحدیدات ہیں حق تعالیٰ بے حد ہیں مملوک میں تقید ہے حق تعالیٰ قیود سے منزہ ہیں مخلوق میں نقص وزوال ہے حق تعالیٰ نقص وزوال سے پاک ہیں ، کائنات کی اشیاء سمت وجہت سے مخصوص ہیں حق تعالیٰ سمت وجہت سے مبرا ہیں ، کائنات کی اشیا کسی نہ کسی طور محتاج ہیں اور حق تعالیٰ احتیاج سے پاک ہیں اشیاء کونیہ کی حقیقتیں معدومات اضافیہ ہیں اور حق تعا لیٰ موجود حقیقی ،

سبحان اللہ الحمد للہ

جوہر و عرض

ممکن الوجود کی مجموعی طور پر دو قسمیں ہیں (۱) جوہر (۲) عرض

جو قائم بنفس نفیس اور بذات خود اور قائم بنفسہ ہوتا ہے اسے جوہر سے تعبیر کرتے ہیں ۔اور جو خود سے نہیں بلکہ قائم بہ غیر خود ہو تا ہے اسے عرض سے موسوم کرتے ہیں ۔

جوہر کی مجموعی طور پر ۵؂ قسمیں ہیں

۱۔عقل۔۲۔نفس۔۳۔جسم۔۴۔ہیولیٰ۔۵۔صورت

۱) عقل ۔ایک جوہر مجرد ہے اور اپنی ذات اور فعل میں مادے سے تنھا

۲)نفس۔مادہ سے مجرد ہے عقل نہیں تصرف و تدبیر کا محتاج ہے

۳) ہیولیٰ۔جسم اور صورت کی جگہ ۔

۴) جسم۔ ہیولیٰ اور صورت سے مرکب ہے ۔

۵) صورت۔ ہیولیٰ میں اترنے والا ایک جوہر ہے ۔

عرض کی نو ۹؂ اقسام ہیں

۱؂۔ کم۔ ۲؂۔کیف۔۳؂۔اضافت۔ پدریت ومادریت ۴؂۔ این ۔۵؂۔ متیٰ۔

۶؂۔ وضع۔ شئی کے اجزاء سے لینا کہ کب کھڑے رہنا، بیٹھنا، ۷؂۔ملک۔ کسی اور کے احاطہ میں رہنا (محاط) ۸؂۔فعل۔ (بڑھئی کا لکڑی کو کاٹنا اور لکڑی کا کٹے جانے کو قبول کرنا ) ۹؂۔انفعال۔متاثر ہونا ،

نوٹ ۔ اللہ جل شانہ ان تمام چیزوں سے برتر اور ، تعالیٰربنا من کیف ، واین،ومتیٰ، ونقص، وشریک،

ھو جامع جمیع الصفات الکمال ،ومنزہ عن النقص والزوال ھوالحق لا الٰہ الاھو

وجود من حیث ھوھو یعنی جس سے وہ موجود با لذات ہے موجود دو قسم کا ہے ۔۔۱؂ واجب ۔۲؂ ممکن۔

الوجب مایکون وجود ہ ضروریاً یعنی واجب وہ ہے جس کا وجود ضروری ہے ورنہ غیر کی طرف اسکا وجودی احتیاج لازم آتی ہے حالانکہ اللہ کی ذات کسی بھی کمال چیز میں غیر کی طرف احتیاج سے پاک ہے

وجود عین ذات ہے یا غیر ذات ہے

متکلمین اسلام اور حکماء عارفین کے نزدیک تمام موجودات میں اصل وجود ہے عقلی طور پر وجود کی دو قسمیں ہیں ایک وجود عین ذات ہے وجود ہی ذات ہے اور ذات ہی وجود ہے وہ اللہ کا وجود ہے جو چیزیں مصدر آثار موجودات ہے وہی یہ اصطلاحات وجود کہلا تا ہے اور حق تعالیٰ واجب الوجود ہیں اور تمام کائنات ممکن الوجود ہے ۔

By silsilaekamaliya • Taleemat Silsila e Qadria Kamalia • Tags: taleemat silsila e qadria, Wahdat al Wajood, Wahdat ul wajood

Jan 10 2015

Aniyat ek iqrar do

Aniyat ek iqrar do

بسم اللہ الرحمن الرحیم

درس – میں پن ؟

حضرت مولانا شاہ محمد کمال الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم

انیت ایک ۔۔۔اقرار دو

انیت ایک اقرار دو ۔ انیت کہتے ہیں میں پن کو ؛ اور یہ میں پن لازمہ ہے وجود کا کیونکہ وجود اللہaniyat ek iqrar do

اور بندے میں مشترک ہے اور ایک ہے لھٰذا جس طریقہ سے اللہ اپنے آپ کو میں کہتا ہے ،اسی طرح بندہ بھی اپنے آپ کو میں کہتا ہے اللہ جب میں کہے گا تو یہ میں خود اسکا ذاتی اور حقیقی ہوگا ، اور جب بندہ جب کبھی میں اپنے وجود کے اعتبار سے کہے گا تو اسکا ذاتی اورحقیقی نہ ہوگا بلکہ عاریتی اور امانتی ہوگا؛

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسکا حقیقی میں کیا ہوگا اگر اسکا حقیقی میں ہوسکتا ہے تو خود اسکا عدم ہے ،اور جو معدوم ہو وہ اپنے آپ کو میں کس طرح کہہ سکتا ہے (یعنی مین پن اسکا اصلی ہے)

لہٰذا جن معنوں میں لفظ میں اللہ پاک استعمال کرتے ہیں ، انہیں معنوں میں بندہ ہرگز استعمال نہیں کرسکتا اور نہ کرنا چاہئے ۔البتہ اگر یہ لفظ میں بندہ استعمال کرے تو اس کے حفظ مراتب کا حسب ذیل طریقہ ہو گا ۔

انیت ایک اقرار دو کے معنیٰ ہیں کہ اللہ اور بندہ میں ۔میں پن ایک ہے مگر بندہ کے اقرار دو ہیں ایک اقرار بندہ کا اللہ کی کبریائی کیلئے، اور دوسرا اقرار بندہ میں اپنی انکساری کیلئے کرتا ہے ، یہ انکساری کا میں پن در اصل اس کے عدم پر دلالت کرتا ہے ، اسکے یہ معنیٰ ہیں کہ میری حقیقت تو عدم ہے اور اپنے آپ کو میں میں نہیں کہہ سکتا ۔ مگر یہ اللہ کی نوازش ہے کہ وجود بخشی کی وجہ سے اپنے آپ کو میں کہہ سکتا ہوں ، بہر حال اگر بندہ اپنی انکساری کو ملحوظ رکھکر اور اس لفظ کو عاریتی اور امانتی سمجھکر استعمال کرے تو جائز ہے اور ٹھیک ہے اور یہی اس کا حق ہے ۔

بندہ کے میں پن کی تشریح ؛۔

اکثر فقرا ء کہتے ہیں کہ فقیر فقیر کے پاس آؤ تو میں پن نکال کر آؤ ان کے اس لفظ میں کہنے سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ یہ لفظ سوائے خدا کے کوئی استعمال نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ موجود حقیقی ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بندہ بھی اپنے آپ کو میں کہتا ہے ۔اس کا یہ میں کہنا تین چیزوں سے ثابت ہے (۱) اسلام میں میں ؔ ۔(۲) ایمان میں میںؔ ۔ (۳) احسان میں میںؔ ۔

ان تینوں کی تشریح حسب ذیل ہے

(۱) اسلام میں میںؔ ۔

سب سے پہلے مسلمان ہونے کیلئے کلمۂ شہادت پڑھنا پڑتا ہے کلمۂ شہادت کی ابتداء ۔ اشہد ان لا الٰہ الا اللہ سے ہو تی ہے اس کے معنیٰ یہ ہے کہ گوا ہی دیتا ہوں میںؔ کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں تو اسلام خود سکھا تا ہے کہ بندہ اپنے کو اسلام میں داخل کرنے کیلئے میں کہے اگر اس میں کو فقراء کے کہنے کے بموجب ، نیں، سے بدل دیں جو اسکا ضد ہے تو یہ معنیٰ ہونگے گواہی دیتا ہوں نیں ؔ یہ معنیٰ بالکل بر عکس ہو جاتے ہیں اور اسلام میں داخل ہونے کے بجائے اسلام کے دائزے سے کلمۂ شہادت پڑہنے والا خارج ہو جاتا ہے ۔

(۲) ایمان میں میں ؔ ؛۔

ایمان مفصل میں اس کی ابتداء آمنت با اللہ سے ہوئی ہے یعنی اس کا تر جمہ یہ ہوا کہ ایمان لاتا ہوں میںؔ اللہ پر ، اغیرہ [الخ ] ایمان میں بھی میں ؔ موجود ہے اگر اس کو بھی نیں سے بدل دیں تو تو معنیٰ بالکل برعکس ہو جاتے ہیں۔

(۳)احسان میں میں ؔ ؛۔

حدیث احسان ؛۔ الاحسان ان تعبداللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک ؛۔ احسان میں بھی عابد کو یہ تصور کرنا پرتا ہے کہ میں ؔ اللہ کو دیکھتا ہوں ۔اگر یہ نہ ہو سکے تو (تصور کرنا ہو گا ) کہ اللہ مجھے دیکھتا ہے ۔ یہاں بھی اگر میں ؔ کو نیں سے بدل دیں تو معنیٰ بالکل بر عکس ہو جاتے ہیں جس سے احسان کی فضیلت غائب ہوکر دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں ۔ اب ہم دیکھیں کہ اس میںؔ اور نیںؔ کی مطابقت کیسی ہے ۔در اصل یہ میں کبریائی کا نہیں اور یہ میں کہنا عار یتاً اور اما نتا ً ہے حقیقی نہیں ہے ۔اس طرح میں کہنا بالکل جائز ہے

میں ؔ – کہنا جائز بھی ہے اور نا جائز بھی ؛۔

جائز اس صورت میں ہے کہ وہ حفظ مراتب کے ساتھ اپنی انکساری اور فرمانبرداری کو پیش کرے

اور ناجائز اس وقت ہے جبکہ بندہ اس میں کو اللہ کی کبریائی کے ساتھ پیش کرے ۔

By silsilaekamaliya • Taleemat Silsila e Qadria Kamalia • Tags: taleemat silsila e qadria

Jan 9 2015

Khair o Shar

Khair o Shar

Maulana Kamal ur Rahman Sahab Damat Barkatuhum

خیر وشر

حضرت مولانا شاہ محمد کمال الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم

تصوف کے بیسیوں مسائل ہیں لیکن حضرتؒ کی افہام وتفہیم کے بعد اور لسانی تفہیمات سننے اورسمجھنے کاموقع ملااورکلیدمعرفت علم علیم اورمعلوم کے نکات کھلنے کے بعدانشراح سے پیش کرنے کی سعادت مل رہی ہے اب مسائل تصوف میں خیروشر مشکل سمجھاگیا ہے لیکن قادریہ ۔کمالیہ ۔سلسلہ کے بزرگوں نے کتاب وسنت کے تحت ہر مسئلہ کا حل پیش کیا ہے اور کیا جاسکتا ہے

ایمان مفصل میں خیروشرکا کاتذکرہ ہےKhair o Shar

وَالْقَدْرِخَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ مِنَ اﷲ

ِ کے جملہ میں ان دونوں عنوانات یعنی خیروشرکاذکر ہے۔ خیروشرکا اندازہ اللہ کی طرف سے ہے اللہ تعالیٰ خالق خیروشر ہیں اوربندہ کاسب خیروشر ہے ۔

خیر بھلائی کوکہتے ہیں اورشربرائی کوکہتے ہیں باعتبار تخلیق فعل خیر خوشگوار امر ہوتاہے اورشرناگوارہوتاہے فکر صحیح کے نتیجہ میں بہت سی باتیں کھلتی ہیں بہت سی چیزیں وہ جو چاہتا ہے اور ہت سی چیزیں وہ ہیں جو وہ نہیں چاہتا فطرتانسانی مرغوبات کا حصول چاہتی ہے صحت پسند ہے بیماری نا پسند ہے راحت پسند ہے اور مصائب ناپسند ہیں زندگی پسند ہے اور موت ناپسد ہے ایسے ہی بعض چیزوں کے حصول کیلئے بیقرار رہتا ہے اور ہت بیتاب قرار چاہتی ہے یہ نمونے اور اضداد

تمیز اور پہچان کیلئے رکھے گئے ہیں مغربی مفکرین خیر وشر کے مسائل میں حیران وپریشان ہیں مشہور فلسفی جان اسٹوٹ رائل کا خیال ہے اللہ کی ذات خیر مطلق ہے لیکن قادر مطلق نہیں قادر مطلق ہونے کی صورت میں شر کا ظہور نہیں ہونا چاہئے

تھا لیکن شر موجود ہے اور ناقابل انکار حقیقت ہے دو قسم کے سلسلہ دنیا میں ہیں ایک طرف ملائکہ کا سلسلہ جوخیرمحض ہے اوران کے مقابلے میں شیاطین ہیں جو شر محض ہیں ملائکہ اور فرشتے ہر بات میں خیر اور بھلائی کی طرف چلتے ہیں اور

شیاطین ہربات میں برائی اور نافرمانی کی طرف چلتے ہیں فرشتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ لَایَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَھُمْ بِاَمرِہٖ یَعْمَلُوْنَ

یہ اللہ کے پاکباز مکرم بندے ہیں اور فرمایا ل

لَایَعْصُوْنَ اﷲَ مَا اَمْرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۔

اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے خدا کا جو حکم ہو بجا لاتے ہیں اس سے سر مو تجاوز نہیں کرتے اور ان میں عصیاں کا نشان نہیں اور شیاطین کے بارے میں فرمایا کہ

وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا

شیطان کاکام ہی کفر کرناہے اور کفران نعمت ہے فرشتے جہاں ہوں گے خوشبو کی طرف دوڑیں گے اور شیاطین جہاں ہوں گے بدبو کی طرف دوڑیں گے حدیث میں آیا ہے کہ جہاں مساجدہیں اور ذکر اللہ کی مجالس

ہواکرتی ہیں وہاں فرشتوں کا ہجوم ہوتا ہے اور جتنی کوڑیاں اور گندگی کے اڈے ہیں وہاں شیاطین کاہجوم ہوتا ہے فرشتوں کا کام دعاء کرنااوروں کیلئے بھلائی چاہنا ہوتاہے اورشیاطین کاکام برائی کرنا کرانا اوربرائی چاہنا اورتکالیف کا سامان کرنا ہوتا ہے

فرشتے جو ہمہ جہت خیر ہوتے ہیں۔

اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُوْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا۔

جو ملائکہ عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں عرش کے اطراف ارد گرد اربوں کھربوں فرشتے ہیں ان کا کام کیا ہے حق تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں اور زمین والوں کیلئے استغفار کرتے رہتے ہیں اور شیاطین کیا کرتے رہتے ہیں

قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ

َ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ میں ایک ایک انسان کو گمراہ کرکے رہوں گا ۔
خیر کا ذکر جو بعض دعاؤں میں آیا ہے

اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ مِنَ الْخَیْرِ کُلِّہٖ عَاجِلِہٖ وَاٰجِلِہٖ

ٖ ائے اللہ میں مانگتاہوں ہر اک خیر سب کاسب اس وقت کااورآئندہ کا۔

اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ مِنْ کُلِّ خَیْرِخَزَاءِنِہٖ بِیَدِکَ وَاَسْءَلُکَ مِنَ الْخَیْرِالَّذِیْ ھُوَ بِیَدِکَ کُلِّہٖ

صحیح حاکم میں حضرت ابن مسعودؓ اور ابن حبان میں حضرت عمرؓ کی روایت میں ان دو جملوں میں دو اہم باتیں ہیں ایک توبہ کرنا ہے خزانہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرے یہ کہ عوہ ہر خیر وبھلائی جو دست قدرت میں ہے اسکی مانگ ہے پہلے جملے میں ہے کہ ائے اللہ میں مانگتا ہوں ہر بھلائی

جس کے خزانے تیرے قبضۂ قدرت میں ہے اور دوسرے جملے میں کا مفہوم یہ ہے کہ مانگتا ہوں وہ سب کی سب بھلائی کہ وہ تیرے قبضہ میں ہے

اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْغِنٰی وَمِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْفَقْرِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ.

ائے اللہ میں تیری پناہ پکڑتا ہوں مالداری کے برے فتنہ سے اور محتاجی کے برے فتنہ سے اور مسیح دجال  کے برے فتنہ سے ان دعاؤں میں مالداریغریبی اورمسیح دجال کے شر کا ذکر ہے
ایک دعا میں ہے اَللّٰہُمَّ قِنِّیْ شَرِّ نَفْسِیْ ائے اللہ مجھے میرے نفس کے شر سے محفوظ رکھ اس سے اندازہ لگتا ہے کہ نفس اصل شریر ہے ۔
ایک دعااس طرح ہے

خُذْ اِلَی الْخَیْرِ بِنَاصِیَۃِ وَجَعَلَ السَّلَامَۃَ مُنْتَھٰی رِضَاءً

اورکشاں کشاں لیجامجھے خیرکی طرف کردے اسلام کومیری انتھا پسند

اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ خَیْرَ الْمَسْءَلَۃِ وَخَیْرَالدُّعَاءِ وَخَیْرَ النَّجَاحِ وَخَیْرَ الْعَمَلِ وَخَیْرَ الثَّوَابِ وَخَیْرَ الْحَیٰوۃِ وَخَیْرَ الْمَمَاتِ.

ائے اللہ میں تجھ سے مانگتا ہوں سب سے اچھا سوال اور سب سے اچھی دعا اور سب سے اچھی کامیابی اور سب سے اچھا عمل اور سب سے اچھا بدلاور سب سے اچھی زندگی اور سب سے اچھی موت ان دعاؤں سےاندازہ ہوتا ہے کہ تمام ہی اعمال میں خیروشرکے پہلورہتے ہیں۔

اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ سُوْءِ الْعُمْرِ وَمِنْ شَرِّ سَمْعِیْ وَمِنْ شَرِّ بَصَرِیْ وَمِنْ شَرِّ لِسَانِیْ۔

ان مذکورہ دعاؤں میں زندگی سماعت بصارت اور زبان کے شرور سے پناہ مانگی گئی ہے ۔

اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی بَطَنِہٖ وَمِنْ شَرِّ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی رِجْلَیْنِ وَمِنْ شَرِّ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی اَرْبَعَہْ

ائے اللہ میں پناہ چاہتاہوں تیرے اس حیوان کی برائی سے جو پیٹ کے بل چلتاہے۔اوراس حیوان کی برائی سے جودوپیروں سے چلتا ہے اوراس حیوان کی برائی سے جوچارپیروں سے چلتاہے یعنی دوندوں پرندوں درندوں وغیرہ کے شرورسے تیری پناہ (کل محسوس موجود) یعنی ہر محسوس موجود ہے برائے تسہیل مسئلہ کی تفہیم کیلئے ایک وجدانی تمثیل یاد رکھئے بیت الخلا سے واپسی کے بعد جو دعا کی جاتی ہے

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّی الْاَذٰی وَعَافَانِی

ْساری تعریف اس اللہ کیلئے ہے جس نے میری تکلیف کو دور کیا اور مجھے عافیت دی دعاکے الفاظ پرغورکریں تکلیف ہمارے ندر ہے اس کے دور کرنے کی نسبت اللہ کی طرف ہے یعنی دفع شر پر اللہ قادر ہیں اور علم صحیح کی روشنی میں معلوم ہوا کہ فاعل حقیقی کون ۔

نتیجہ دیکھئے

بندہ میں غلاظت اور شرکا ظہور نہ ہوتا تو ،تو خیر کی معرفت کیسے ہوتی اس تمثیل میں بندہ کی معرفت نقص اور شر کے ساتھ ہوئی اور اللہ کی معرفت کمال خیر کے ساتھ ہوئی تو معلوم ہواکہ اپنی ذات محل شر اور اللہ کی ذات خیر ہی خیر ذات مخلوق میںشر کے سوا کچھ نہیں اور اللہ میں خیر کے سوا کچھ نہیں،اس کے سوا پہچان کیا ہو ۔

By silsilaekamaliya • Taleemat Silsila e Qadria Kamalia • Tags: Khair o Shar, taleemat silsila e qadria

Jan 9 2015

Taleemat Silsila e Qadria Kamaliya 12

Taleemat Silsila e Qadria Kamaliya 12

Hazrath Maulana Shah Mufti Mohammed Nawal ur Rahman Sahab Damat Barkatuhum
Taleemat Silsila e Qadria Kamaliya 12

تعلیمات سلسلۂ قادریہ چشتیہ کمالیہ

 

حضرت مولانا شاہ مفتی محمد نوال الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم

Click here to Download

By silsilaekamaliya • Taleemat Silsila e Qadria Kamalia • Tags: taleemat silsila e qadria

Jan 9 2015

Taleemat Silsila e Qadria Kamaliya 11

Taleemat Silsila e Qadria Kamaliya 11

Hazrath Maulana Shah Mufti Mohammed Nawal ur Rahman Sahab Damat Barkatuhum
Taleemat Silsila e Qadria Kamaliya 10

تعلیمات سلسلۂ قادریہ چشتیہ کمالیہ

 

حضرت مولانا شاہ مفتی محمد نوال الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم

Click here to Download

By silsilaekamaliya • Taleemat Silsila e Qadria Kamalia • Tags: taleemat silsila e qadria

Jan 9 2015

Taleemat Silsila e Qadria Kamaliya 10

Taleemat Silsila e Qadria Kamaliya 10

Hazrath Maulana Shah Mufti Mohammed Nawal ur Rahman Sahab Damat Barkatuhum
Taleemat Silsila e Qadria Kamaliya 10

تعلیمات سلسلۂ قادریہ چشتیہ کمالیہ

 

حضرت مولانا شاہ مفتی محمد نوال الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم

Click here to Download

By silsilaekamaliya • Taleemat Silsila e Qadria Kamalia • Tags: taleemat silsila e qadria

Jan 9 2015

Kalima e Tayyeba Mein Teen Haal

Kalima e Tayyeba Mein Teen Haal

کلمۂ طیبہ میں تین حال

کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہﷺ کے زبانی اقرار اور تسلیم کرنے ہی سے کوئی شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے اور اسی کلمہ کی دل سے تصدیق پر مسلم مؤمن ہوتا ہے اور تین حال کا استحضار کرنے ہی سے مؤمن ولی ہوتا ہےKalima e Tayyeba Mein Teen Haal

ہے۔ کو ،ہے،کہنا توحید ہے اور۔نہیں ، کو، نہیں ،کہنا توحید ہے ۔تین حال اسی توحید کے تین مراتب ہیں ۔اقرار وتسلیم زبان ے حاصل ہوتے ہیں ،تصدیق دل سے حاصل ہوتی ہے ، اور استحضار اللہ کو غالب رکھنے سے حاصل ہوتا ہے ۔مسلم وہ جو اللہ کو صرف زبانہی زبان سے یاد کرے

مؤمن وہ ہے جو اللہ کو نہ صرف زبان سے یاد کرے بلکہ دل سے بھی یاد کرے ۔اور ولی وہ ہے جو اللہ کو نہ صرف زبان وقلب سے یاد کرتا ہے بلکہ اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا ۔

ولی کی تعریف یہ ہے کہ وہ خود اللہ کی یادسے مجسم  بن جائے کہ دوسرے لوگ جو کسی بھی غرض سے اس کی صحبت میں ہیں انہیں بھی اللہ کی یاد دلائے ۔

حال اوّل

انسان اپنی تخلیق میں جماد نبات اور حیوان کے مراتب سے گذرتا ہے ہر نسان پہلے رحم مادر مین نطفہ ہوتا ہے اسکے بعد علقہ یا خون کی پھٹکی بنتا ہے اسکے بعد مضغہ یالوتھڑے میں تبدیل ہوتا ہے پھر عظام یا ہڈیاں پیدا ہوتی ہیں پھر سے آخر میں ان ہڈیوں پرلحم یا گوشت چڑھایا جاتا ہے اسی تفصیل کو قرآن شریف کی حسب ذیل آیت میں ظاہر فرمایا گیا ہے

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَأْنٰہُ خَلْقًا آخَرَ، فَتَبَارَکَ اﷲُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ۔

جب یہ ڈھانچہ تیار ہوجاتا ہے تو یہی انسان کا نمونہ ہوتا ہے

اس نمونہ میں جماد کی سی کیفیت موجود ہے کیونکہ اسکا گوشت اور ہڈیاں جماد جیسے ہیں اور یہی نمونہ نبات سے بھی مشابہ ہے کیونکہ اس میں نشو نما کی صلاحیت بھی ہے اس نمونہ کو اس زمانہ میں انسان اور حیوان سے زیادہ جماد اور نبات کہنا مناسب ہوتا ہے جبکہ وہ رحم مادر میں تین ماہ کا ہو کیونکہ اس نمونہ میں غلبہ جماد و نبات کا ہوتا ہے اور یہ سب ارتقا تین ماہ کے دوران رحم مادر میں اللہ کی صفت خلاقیت سے طے پاتا ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اولاً جمادی اور پھر باتی روح اس نمونہ انسان سے متعلق کردیتی ہے یہ دونوں ارواح وہ تمام چیزیں بالقویٰ رکھتی ہیں جن کو آئندہ اللہ پاک اس انسان کو عنایت کرتے ہین تین ماہ گذرنے کے بعد جب اللہ تعالیٰ دیکھتے ہیں کہ یہ نمونۂ انسانی مردہ ہے مضطر ہے جاہل ہے عاجز ہے بہرہ ہے اندھا ہے اور گونا ہے تو اپنی کمالِ رحمت سے اس سے روح حیوانی جو پرتو روح انسانی ہے متعلق کردیتے ہیں اس وقت مردہ زندہ ہوتا ہے بہرہ سماعت پاتا ہے اور اندھا بصارت پاتا ہے اور گونگا کلام پاتا ہے یہ سب صفات اس نمونۂ انسانی میں چوتھے ماہ سے نویں ماہ تک حیوانی صفات کے مشابہ ہوتے ہیں اس زمانہ میں اس نمونہ کو انسان سے زیادہ حیوان کہنا مناسب ہوتا کیونکہ اس میں غلبہ حیوان کا زیادہ ہوتاہے نو ماہ بعد جب یہ نمونہ پیدا ہوتا ہے تو یہ انسان نہیں بلکہ انسان کا بچہ ہوتا ہے پیدائش کے بعد سے اس بچہ پر وہ دور شروع ہوتا ہے جو خالص انسانی دو ہوتا ہے اب انسان کہنا زیادہ مناب ہوتا ہے کیونکہ اس دور میں اس کی جماد اور جمادی روح اور نبات اور نباتی روح ہردو انسان اور انسانی روح کے تابع ہوجاتے ہیں ،

اس دور میں جسم کو حرکت دل سے ہوتی ہے دل کو حرکت روح سے ہوتی ہے اور روح کو حرکت حق سے ہوتی ہے اس کو تفصیل سے وں کہہ سکتے ہیں کہ روح حی کا مظہر اور دل علیم کا مظہر اور نفس مرید کا مظہر جسم قدیر کا مظہر آنکھ بصیر کا مظہر کان سمیع کا مظہر اور زبان کلیم کا مظہر ہے اس کی تصدیق اپنے پہلے حال کا اقرار ہے اور یہ اقرار وتصدیق اس تو حید کا پہلا مرتبہ ہے جسکو ہے کو ہے اور نہیں کو نہین کہتے ہیں

حال دوم

دوسرا حال حق کے وجود اور صفات وجودیہ خلق کے ودم اور صفات عدمیہ سے متعلق ہے جس کی تفصیل یوں ہیکہ تمام عالم کا وجود پرتو وجود حق ہے تمام عالم کی حیات پرتو حیات حق ہے تمام کا علم تو علم حق ہے تمام عالم کا ارادہ پرتو ارادہ حق تمام عالم کی قدرت پرتو قدرت حق تمام عالم کی سماعت پر تو سماعت حق تمام عالم کی بصارت پر تو بصارت حق اور تمام عالم کا کلام پرتو کلام حق ہے ان کی تصدیق اپنے دوسرے حال کا اقرار ہے یہ اقرار و تصدیق اس توحید کا دوسرا مرتبہ ہے جسکو ہے کو ہے اور نہیں کو نہیں کہتے ہیں ۔

حال سوم

پہلے دو حال میں اللہ کی صفات وجودیہ کو بیان کیا گیا ہے ان صفات وجودیہ کو اللہ کے صفات ذاتی یا امہات الصفات بھی کہتے ہیں؛ اب ہم اللہ کے دیگر اسماء اور صفات آثاری یا اضافی کو لینگے جنکا بیان اس تیسرے حال میں کیا جاتا ہے

ذات خلق سب آثار اللہ ہیں آثار میں ذات حق مؤثر ہوتی ہے اور ذات خلق متأ ثر ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات آثاری یا اضافی حسب ذیل ہیں۔

(۱) اللہ کے اسم ہادی کا ظہور مسلم میں ہوتا ہے

(۲) اللہ کے اسم مضل کا ظہور غیر مسلم میں ہوتا ہے

(۳) اللہ کے اسم نافع کا ظہور کائنات کا سارا نفع ہے

(۴)ا للہ کے اسم ضارکاظہورکائنات کاسب کچھ نقصان ہے

(۵)اللہ کے اسم ودود کا ظہر کائنات کی ساری محبت ہے

(۶)اللہ کے اسم قاہر کا ظہور کائنات میں پائی جانے والی سب دشمنی ہے

(۷)اللہ کے اسم عزیزکاظہورکائنات کی ساری عزت میں ہے

(۸)اللہ کے اسم مذل کا ظہور کائنات کی ذلتوں میں ہے

(۹)اللہ کے اسم معبود کا ظہور کائنات کی ساری عبادتوں میں ہے

(۰۱)اللہ کے اسم داع کا ظہورکائنات کے فضلات میں ہے

(۱۱)الہ کے اسم طاہر کا ظہور کائنات کی صفائی غسل و وضوسے ہے

(۱۲)اللہ کے محیکا ظہور ر صاحب حیات میں ہے

(۱۳)اللہ کے اسم ممیت کاظہورتمام مرنے والوں میں ہوتاہے

(۱۴)اللہ کے اسم ستار کا ظہور ہر قسم کے لباس مین ہے

(۱۵)اللہ کے اسم رزاق کا ظہور ہر ایک کے رزق میں ہوتا ہے

(۱۶)اللہ کا اسم معطی کا ظہور کائنات کی ہر عطا میں ہے

(۱۷)اللہ کے اسم قابض کاظہورہرمقبوضہ شئی میں ہوتا ہے

(۱۸)اللہ کے اسم خالق کا ظہور ہر پیدا ہنے واے میں ہے

اسی طرح باقی اور اسما کو بھی قیاس کرلیا جائے یہ ساری تفصیل ہے انھیں اجمالی طور سے بھی بیان کیا جاتا ہے ۔اگر کوی تفصیل کے بجائے اجمال ہی کو یاد رکھ لے تو بھی کافی ہے جو ذیل میں درض ہے

التوحید اسقاط الاضافات

اضاتوں کا ساقط کرناتوحید ہے اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ آثار میں مؤثر ذات حق کو جاننا اور ذات خلق کو متأ ثر جاننا ہے

اس کے تین ضمن ہیں (۱)ملکیت(۲)نعمت(۳)فعل۔

(۱) ملکیت:۔ہرتملیک میں مالک حقیقی اللہ ہی کوجانناصدق ہے کسی تملیک میں غیر اللہ کو مالک جاننا کذب ہے ۔

(۲) نعمت:۔ہر نعمت مین منعم حقیقی اللہ ہی کو جاننا صدق ہے اورکسی بھی نعمت میں غیراللہ کومنعم جانناکذب ہے۔

(۳)فعل:۔ ہر فعل میں فاعل حقیقی اللہ ہی کو جاننا صدق ہے اور کسی فعل میں غیر اللہ کو فاعل جاننا کذ ہے ۔

توحیدکیلئے صدق کااثبات اورکذب کی نفی کرناضروری ہے

ان کی تصدیق اپنے تیسرے حال کا اقرار یہ اقرار اور تصدیق اس توحید کا تیسرا مرتبہ ہے جس کو ہے کو ہے اور نہیں کو نہیں کہتے ہیں ۔

By silsilaekamaliya • Qaal e Saheeh • Tags: Qaal e Saheeh

«‹ 101 102 103 104›»

Latest Updates

  • Join the Movement to Protect Waqf Properties – Waqf Amendment Bill 2025 April 22, 2025
  • Taleemat Silsila e Kamaliya Live September 2, 2024
  • Teri Shan Kun Fakan Hai – Hamd e Bari Tala – Ammar Asad August 30, 2024
  • Majlis Ehsaan o Sulook – Madrasa Tajweed ul Quran Amberpet May 14, 2023
  • Gathering In Memory of Maulana Kamal ur Rahman Sahab Rahmathullah Alaih May 11, 2023
  • Weekly Majlis Khanqah e Jamaliya May 11, 2023
  • Condolence by Maulana Khaled Saif Ullah Rahmani May 10, 2023
  • Condolence By Maulana Muhammad Ilyas Ghumman May 10, 2023
  • Dars e Hadith – Maulana Shah Mohammed Zilal ur Rahman Sahab May 10, 2023
  • Izhaar e Tashakkur – اظہار تشکر May 10, 2023
Quran Online

Subscribe Mailinglist

Seedha Raasta

Seedha Raasta

Sukoon e Dil

Seedha Raasta

Online Visitors

Free counters!

↑

© Silsila e Kamaliya 2025
Al-Kamal Publications