Aniyat ek iqrar do

Aniyat ek iqrar do

بسم اللہ الرحمن الرحیم

درس – میں پن ؟

حضرت مولانا شاہ محمد کمال الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم

انیت ایک ۔۔۔اقرار دو

انیت ایک اقرار دو ۔ انیت کہتے ہیں میں پن کو ؛ اور یہ میں پن لازمہ ہے وجود کا کیونکہ وجود اللہaniyat ek iqrar do

اور بندے میں مشترک ہے اور ایک ہے لھٰذا جس طریقہ سے اللہ اپنے آپ کو میں کہتا ہے ،اسی طرح بندہ بھی اپنے آپ کو میں کہتا ہے اللہ جب میں کہے گا تو یہ میں خود اسکا ذاتی اور حقیقی ہوگا ، اور جب بندہ جب کبھی میں اپنے وجود کے اعتبار سے کہے گا تو اسکا ذاتی اورحقیقی نہ ہوگا بلکہ عاریتی اور امانتی ہوگا؛

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسکا حقیقی میں کیا ہوگا اگر اسکا حقیقی میں ہوسکتا ہے تو خود اسکا عدم ہے ،اور جو معدوم ہو وہ اپنے آپ کو میں کس طرح کہہ سکتا ہے (یعنی مین پن اسکا اصلی ہے)

لہٰذا جن معنوں میں لفظ میں اللہ پاک استعمال کرتے ہیں ، انہیں معنوں میں بندہ ہرگز استعمال نہیں کرسکتا اور نہ کرنا چاہئے ۔البتہ اگر یہ لفظ میں بندہ استعمال کرے تو اس کے حفظ مراتب کا حسب ذیل طریقہ ہو گا ۔

انیت ایک اقرار دو کے معنیٰ ہیں کہ اللہ اور بندہ میں ۔میں پن ایک ہے مگر بندہ کے اقرار دو ہیں ایک اقرار بندہ کا اللہ کی کبریائی کیلئے، اور دوسرا اقرار بندہ میں اپنی انکساری کیلئے کرتا ہے ، یہ انکساری کا میں پن در اصل اس کے عدم پر دلالت کرتا ہے ، اسکے یہ معنیٰ ہیں کہ میری حقیقت تو عدم ہے اور اپنے آپ کو میں میں نہیں کہہ سکتا ۔ مگر یہ اللہ کی نوازش ہے کہ وجود بخشی کی وجہ سے اپنے آپ کو میں کہہ سکتا ہوں ، بہر حال اگر بندہ اپنی انکساری کو ملحوظ رکھکر اور اس لفظ کو عاریتی اور امانتی سمجھکر استعمال کرے تو جائز ہے اور ٹھیک ہے اور یہی اس کا حق ہے ۔

بندہ کے میں پن کی تشریح ؛۔

اکثر فقرا ء کہتے ہیں کہ فقیر فقیر کے پاس آؤ تو میں پن نکال کر آؤ ان کے اس لفظ میں کہنے سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ یہ لفظ سوائے خدا کے کوئی استعمال نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ موجود حقیقی ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بندہ بھی اپنے آپ کو میں کہتا ہے ۔اس کا یہ میں کہنا تین چیزوں سے ثابت ہے (۱) اسلام میں میں ؔ ۔(۲) ایمان میں میںؔ ۔ (۳) احسان میں میںؔ ۔

ان تینوں کی تشریح حسب ذیل ہے

(۱) اسلام میں میںؔ ۔

سب سے پہلے مسلمان ہونے کیلئے کلمۂ شہادت پڑھنا پڑتا ہے کلمۂ شہادت کی ابتداء ۔ اشہد ان لا الٰہ الا اللہ سے ہو تی ہے اس کے معنیٰ یہ ہے کہ گوا ہی دیتا ہوں میںؔ کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں تو اسلام خود سکھا تا ہے کہ بندہ اپنے کو اسلام میں داخل کرنے کیلئے میں کہے اگر اس میں کو فقراء کے کہنے کے بموجب ، نیں، سے بدل دیں جو اسکا ضد ہے تو یہ معنیٰ ہونگے گواہی دیتا ہوں نیں ؔ یہ معنیٰ بالکل بر عکس ہو جاتے ہیں اور اسلام میں داخل ہونے کے بجائے اسلام کے دائزے سے کلمۂ شہادت پڑہنے والا خارج ہو جاتا ہے ۔

(۲) ایمان میں میں ؔ ؛۔

ایمان مفصل میں اس کی ابتداء آمنت با اللہ سے ہوئی ہے یعنی اس کا تر جمہ یہ ہوا کہ ایمان لاتا ہوں میںؔ اللہ پر ، اغیرہ [الخ ] ایمان میں بھی میں ؔ موجود ہے اگر اس کو بھی نیں سے بدل دیں تو تو معنیٰ بالکل برعکس ہو جاتے ہیں۔

(۳)احسان میں میں ؔ ؛۔

حدیث احسان ؛۔ الاحسان ان تعبداللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک ؛۔ احسان میں بھی عابد کو یہ تصور کرنا پرتا ہے کہ میں ؔ اللہ کو دیکھتا ہوں ۔اگر یہ نہ ہو سکے تو (تصور کرنا ہو گا ) کہ اللہ مجھے دیکھتا ہے ۔ یہاں بھی اگر میں ؔ کو نیں سے بدل دیں تو معنیٰ بالکل بر عکس ہو جاتے ہیں جس سے احسان کی فضیلت غائب ہوکر دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں ۔ اب ہم دیکھیں کہ اس میںؔ اور نیںؔ کی مطابقت کیسی ہے ۔در اصل یہ میں کبریائی کا نہیں اور یہ میں کہنا عار یتاً اور اما نتا ً ہے حقیقی نہیں ہے ۔اس طرح میں کہنا بالکل جائز ہے

میں ؔ – کہنا جائز بھی ہے اور نا جائز بھی ؛۔

جائز اس صورت میں ہے کہ وہ حفظ مراتب کے ساتھ اپنی انکساری اور فرمانبرداری کو پیش کرے

اور ناجائز اس وقت ہے جبکہ بندہ اس میں کو اللہ کی کبریائی کے ساتھ پیش کرے ۔