Muhammed Rasool Allah Sallallahu Alaihi Wasallam

Muhammed Rasool Allah Sallallahu Alaihi Wasallam

 

محمد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)

 

حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ

ذاتِ نبویؐ کے امتیازی شرف سے جدید تعلیم یافتوں کے بے اعتنائی:

 

جو طباع زمانہ کے جدید رنگ کے رنگے ہوئے ہیں ان میں یہ کوتاہی مشاہد ہے کہ وہ جناب رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف اسی قدر دلچسپی رکھتےہیں کہ دوسری اقوام یا مذاہب سے مقابلہ کے موقع پر آپؐ کی سوانح عمری یا آپؐ کے بعض اقوال و افعال کی حکمتوں میں صرف وہ حصہ جس کو تمدّن سے تعلق ہے محض اسی غرض سے بیان کرتے ہیں آپؐ عظمت اور آپ کے قانون کی عزت (برتری) ظاہر ہو، اور اس کو اسلام کی خدمت اور آپ کے ادائے حقوق کے لئے کافی سمجھتے ہیں، باقی نہ اتباع کو ضروری سمجھتے ہیں، نہ محبت کا کوئی اثر پایا جاتا ہے، بلکہ اتباع کو تعصب اور محبت کو وحشت سمجھتے ہیں، اور سبب خفی اس کا یہ ہے کہ زمانہ میں سب سے بڑا مقصد جاہ و عزت کو قرار دیا گیا ہے جس کے مطلوب ہونے کا ہم کو بھی انکار نہیں، مگر کلام اس میں ہے کہ آیا وہ مطلوب بالعرض ہے یا خود مطلوب بالذات؟ بہر حال چونکہ اس کو مطلوب بالذات سمجھا جاتا ہے اس لئے نبی اقدس حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لاتعدد و لاتحصیٰ (اَن گنت) کمالات حقیقیہ عظمۃ الشان میں سے ان کی نظر اسی کا انتخاب کرتی ہے اور دوسرے کمالات مثل محبت الٰہی، خشیت، زہد، صبر، تربیتِ روحانی اور مجاہدہ و شغل بحق اور دیگر فضائلِ علمیہ و عملیہ کا کبھی ان کی زبان پر نام بھی نہیں آتا، جس کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ گویا آپ اسی غرض کے لئےمبعوث کئے گئے تھے کہ ایک جماعت کو قوم بناکر اس کو دینی ترقی کے وسائل کی تعلیم فرمائیں، تاکہ وہ دوسری قوموں پر سابق و فائق (یعنی سبقت لیجانے والی اور غالب رہنے والی) رہ کر دنیا میں شوکت کےساتھ زندگی بسر کرسکے،کیا قرؤن مجید اور حدیث میں گہری نظر رکھنے والا آپؐ کی تعلیم کا یہ خلاصہ نکال سکتا ہے؟

Muhammed Rasool Allah SAW
Muhammed Rasool Allah SAW

ان لوگوں میں متابعت و محبت کا وجود نہ ہوتا تو ظاہر ہی ہے، نظرِ عمیق سے دیکھا جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی عظمت جو آپؐ کے حاملِ وحی ہونے کی حیثیت سے تعلق رکھتی ہے، (جس کو قرآن نے یُوْحٰی اِلَیَّ کا ایسا امتیاز قرار دیا جس میں قیامت تک غیر نبی شریک نہیں ہوسکتا اور جس امتیازِ خاص ہی کی وجہ سے انسانیت اللہ تعالیٰ کی مرضیات اور ابدی، غیبی حقائی سے واقف ہوسکی، ورنہ انسان ایک متمدّن حیوان کی سطح سے ایک انچ آگے نہ برھ سکتا۔ مرتب) اس کا احتمال بھی ان کے ہاں نہیں پایا جاتا، ان لوگوں کی تقریر و تحریر میں نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے قلوب میں آپؐ کی جو عظمت ہے وہ اس حیثیت سے (ہے ہی) نہیں بلکہ ایک حکیمِ تمدّن ہونے کی حیثیت سے ہے اور صرف حکیمِ تمدّن ہونے کے اعتبار سے جو اعتقاد و عظمت ہوتی ہے وہ اتنی ہی ہے جتنی کہ کسی ذی رائے انسان کی رائے سن کر ہوتا ہے۔

(اس کا ضرر یہ ہے کہ حضور اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات (حکمِ شریعت) کے قبول کرنے میں یا اس کو وقعت کی نظر سے دیکھنے میں جب تک اس کی مصلحت (اپنی عقل نارسا کو) معلوم نہ ہو سخت تردد اور خلجان رہتا ہے اور اس پر عمل کرنے میں ایک قسم کی تنگی، جبر اور تحکم کا سا اثر رہتا ہے، اور دوسروں کے سامنے اس کا دعویٰ کرنے میں ایک گونہ خجلت اور بے وقعتی کی سی کیفیت رہتی ہے؛ بلکہ کوشش رہتی ہے کہ کسی طرح اس کا شرعی ہونا ہی ثابت نہ ہو، یا کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت وقتی ضرورت و مصلحت کا دعویٰ کردیتے ہیں، غرض ہزار حیلے نکالے جاتے ہیں اور اگر ماننا ہی پڑگیا تو اعتقاد اور خوشدلی سے نہی بلکہ بدنامی سے بچنے یا قومی ضرورت کے ماتحت یا مذہبی مجبوری سمجھ کر مانتے ہیں اور یہ وہ مراتب (انکار و قبولیت کے) ہیں جو کم و بیش کفر سے ملے ہوئے ہیں۔حضرت تھانویؒ)

بیان بطرزِ اہلِ اَسرار:

 

میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا راز حضراتِ صوافیہ و اہلِ اسرار رحمہم اللہ کے طرز پر بیان کروں گا، کیونکہ حقیقت کو انہیں حضرات نے خوب سمجھا ہے اور لوگ تو الفاظ ہی میں ہیں اور یہ لوگ اسرار سمجھتے ہیں، مگر اس سے یہ نہ سمجھیں کہ وہ مضمون اہل اسرار کا مخترع (خود ساختہ) ہوگا اور کتاب و سنت سے ثابت نہ ہوگا، یاد رکھو! کہ یہ حضرات جو کچھ سمجھتے ہیں کتاب و سنت ہی سے سمجھتے ہیں، اگر کتاب و سنت سے خارج کوئی شئے ہوگی تو وہ خود مردود ہے۔

نورِ محمدیؐ کے دو گونہ برکات:

 

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےنورِ مبارک کے برکات دوم قسم پر ہیں، ایک صوری، جو کہ اشیاء کے وجود و ظہور سے تعلق رکھتی ہیں، دوسرے معنوی، جو ان اشیاء میں خاص اہلِ ایمان کے صدور (سینوں) کے متعلق ہیں۔

ظہور کے متعلق تو آپؐ کے نورِ مبارک کی برکت یہ ہے کہ تمام عالم کا وجود آپ کے نور سے ہوا اور لوگ آج کل اسی کو زیادہ بیان کرتے ہیں، صدور (سینوں) کے متعلق آپؐ کے برکات یہ ہیں: ایمان و معرفتِ الٰہی سب کو آپؐ ہی کے واسطہ سے حاصل ہوئی، ان برکات کو آج کل لوگ کم کیا بیان ہی نہیں کرتے، بلکہ چھوڑ دیتے ہیں، حالانکہ زیادہ ضروری اسی کے بیان کرنے کی ہے، کیونکہ جو اثر آپؐ کے نور کا ظہور کے متعلق ہے اس کے آثار تو محسوس ہیں اور جو اثر صدور کے متعلق ہے اس کے آثار یعنی خاص ثمراتِ مقصودہ وہ قیامت اورجنت میں معلوم ہوں گے، یہاں ان سے ذہول ہے، نیم وہ رتبہ میں بھی اعظم ہیں، اس لئے زیادہ ضرورت اسی کے بیان کرنے کی ہے، کیونکہ ظہور پر تو صرف اسی قدر اثر ہوا کہ ہم موجود ہوگئے مگر صرف موجود ہوجانے سے کچھ زیادہ فضیلت نہیں حاصل ہوسکتی، پوری فضیلت تو ایمان و معرفتِ الٰہی سے حاصل ہوتی ہے، جس کی وجہ سے انسان کو حیوانات پر شرف ہے، تیسرے یہ جو اثرات نورِ مبارک کے ظہور پر ہوئے وہ متناہی اور محدود ہیں، کیونکہ موجودات اپنی ذات کے اعتبار سے متناہی ہیں اور صدور (سینوں) پر جو اثر ہوا وہ غیر متناہی ہے، کیونکہ معرفتِ الٰہی کے مراتب اور ان کے ثمرات غیر متناہی ہیں، پس آپ کے نورِ مبارک کے یہ برکات زیادہ بیان کرنے کے قابل ہیں۔

حیاتِ نبویؐ کی عظمت:

 

لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ۔ (الحجر:۷۲)

یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی حیات اور جان کی قسم ہے، وہ قوم لوط اپنی مستی اور نشہ میں بھٹک رہے تھے، ….. مضمون تو صرف اتا ہے، اب میں اس سے اپنا مقصود عرض کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس قسم سے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی حیاتِ شریف کی عظمتِ شان بیان فرمادی ہے، سبحان اللہ! بیان بھی فرمائی تو ایسے طرز سے کہ سننے والوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ قومِ لوط کی حالت کو بیان کرنا ہے، مگر اس کے ضمن میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوبیت کو عجیب انداز سے بیان فرماگئے ؎

خوشتر باشد کہ سرِّ دلبراں

گفتہ  اید  در حدیثِ  دیگراں

طالب کے لئے تو اندازِ بیاں کافی ہے اور آپؐ کی محبوبیت اس پر عیاں ہوگئی اور جو ناقدر اور غیر طالب ہے اس کو التفات بھی نہ ہوگا کہ کیا بات کہہ دی اور کتنی دور کی اور کس قدر گہری فرمادی۔

رہا یہ کہ اس سے محبوبیت کیسے سمجھی گئی اور وجہِ استدلال کیا ہے؟ تو وہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ جس شئے کی قسم کھائیں تو وہ بہت بڑی شئے ہوگی، ایسی قسم جب ہی کھائی جاتی ہے کہ قسم کھانے والے کو مقسم بہٖ (جس کی قسم کھائی جائے) سے غایتِ تعلق ہو۔

شبہ کا جواب:

 

یہاں پڑھے لکھے حضرات کو شبہ ہوسکتا ہے کہ قسم کھانا تو دلیل عظمت کی نہیں ہے، اس واسطے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزوں کی قسم کھائی ہے، انجیر کی قسم، فجر، چاشت اور رات کی قسمیں قرآن مجید میں موجود ہیں، اگر یہی دلیل عظمت کی ہے تو یہ سب چیزیں بھی عظیم الشان ہوں گی۔

اس شبہ کے جواب کے لئے اوّل ایک مقدمۂ عقلی سمجھ لیجئے، وہ یہ کہ ہر شئے کا شرف اس کی نوع کے اعتبار سے ہوتا ہے، تو مقسم بہٖ ہونا بے شک دلیل ہے شرف کی، لیکن مطلقاً نہیں بلکہ اس کی نوع کے اعتبار سے یعنی یہ سمجھا جائے گا کہ یہ شئے اپنی نوع میں سب افراد سے افضل ہے، حضرت امام غزالی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ کھانا افضل ہے یا پانی؟ تو وہ مجنون ہے، ….. ہاں اگر انواع ہی میں گفتگو ہو تو وہ دوسری بات ہے، لیکن اگر افراد میں ہو تو اس میں یہ رعایت ضرور ہوگی کہ ایک نوع کے تحت داخل ہوں، مثلاً یوں نہ کہیں گے کہ مسجد افضل ہے یا فلاں کتاب؟ ہاں یوں کہیں گے کہ یہ مسجد افضل ہے یا فلاں مسجد یا فلاں گھر،…… تو اب سمجھ لیجئے کہ مقسم بہٖ ہونا بے شک دلیل اس کے شرف کی ہے، مگر یہ نہیں کہ وہ سب اشیاء سے افضل ہو؛ بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی نوع میں افضل ہے، پس انجیر بے شک افضل ہے لیکن ثمرات میں، اور فجر بلاشبہ افضل ہے مگر اوقات میں، پس اس بناء پر آپؐ کی حیات کے مقسم بہٖ ہونے سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو فضیلت و عظمت ثابت ہوگی وہ اپنے اخوان یعنی انبیاء علیہم السلام میں ثابت ہوئی اور اس سے تمام انبیاء میں افضل ہونا ثابت ہوا، اب چونکہ انبیاء علیہم السلام تمام انسانوں سے افضل ہیں، لہٰذا آپؐ کا ’’سَیِّدُ وُلدِ آدم‘‘ (اولادِ آدم کے سردار) ہونا معلوم رہا، اب رہی یہ بات کہ فضیلتِ مطلقہ کیسے ثابت ہوئی؟ تو وہ اس طرح کہ باتفاقِ عقلاء انسان اشرف المخلوقات ہے، نیز حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ (الاسراء:۷۰) ’’ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی‘‘، پس جبکہ نوعِ انسانی تمام انواع سے افضل ہے اور انواعِ انسان میں انبیاء علیہم السلام افضل ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم افضل المرسلین اور سید الانبیاء ہیں، تو آپؐ افضل الخلق ہوئے، چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی دو قسمیں بنائیں: عرب و عجم، ان میں عرب کو فضیلت عطا فرمائی، پھر عرب میں قریش کو افضل بنایا اور قریش میں سے بنی ہاشم کو منتخب فرمایا، پھر ان میں مجھ کو پیدا کیا، پس میں افضل الناس ہوں نسباً بھی، پس اب شبہ رفع ہوگیا اور لَعَمْرُکَ (آپ کی عمر کی قسم!) سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور محبوبیت ثابت ہوگئی۔

حیاتِ محمدیؐ کی چار حالتیں:

 

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کی چار حالتیں ہوں گی:

(۱) نور کےپیدا ہونے سے ولادت شریف تک۔

(۲) ولادتِ شریف سے وفات تک۔

(۳) وفات سے حشر و نشر تک۔

(۴) حشر و نشر سے خلودِ جنت تک جو غیرمتناہی ہے۔

لَعَمْرُکَ میں مقسم بہٖ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ہے، اس لئے کہ عمر بفتح و ضم نام ہے حیات و بقاء کا، اور حیات کہتے ہیں ذی حیات کی اس حالت کو جو تولد سے لے کر وفات تک ہے، تو آپؐ کی نوریت کی جو حالت عالمِ ارواح سے بھی پہلے تھی اس کو بھی حیات کہہ سکتے ہیں، جس کی نسبت ارشاد ہے: کنتُ نبیًّا و اٰدمُ بینَ الرُّوحِ و الجسد۔ (میں اس وقت نبی بنایا جاچکا تھا جبکہ آدمؑ کا خمری ابھی تیار ہورہا تھا۔ ترمذی) ….. اور اس وقت آپ کا بدنِ مبارک تو بنا نہ تھا، پھر نبوت کی صفت (ظاہر ہے کہ) آپؐ کی روح کو عطا ہوئی تھی اور نورِ محمدیؐ اسی روح محمدیؐ کا نام ہے، اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ آپ کا خاتم النبیین ہونا مقدر ہوچکا تھا تو اس سے آپؐ کے وجود کا تقدم حضرت آدم علیہ السلام پر ثابت نہ ہوا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ مراد ہوتی تو اس سے آپؐ کی تخصیص کیا تھی، تقدیر تمام اشیائے مخلوقہ کی ان کے وجود سے متقدم ہے، لہٰذا یہ تخصیص خود دلیل ہے اس کی کہ مقدر ہونا مراد نہیں بلکہ اس صفت کا ثبوت مراد ہے، اور ظاہر ہے کہ کسی صفت کا ثبوت فرع ہے مثبت لہٗ کے ثبوت کی، پس اس سے آپؐ کے وجود کا تقدم ثابت ہوگیا، اور چونکہ مرتبۂ بدن متحقق نہ تھا اس لئے نور اور روح کا مرتبہ خود نبوت ہی کے ثبوت کے کیا معنیٰ؟ کیونکہ نبوت آپؐ کو چالیس (۴۰) سال میں عمر میں عطاء ہوئی اور چونکہ مرتبۂ بدن متحقق نہ تھا اس لئے نور اور روح کا مرتبہ متعین ہوگیا، اگر کسی کو شبہ ہو کہ اس وقت ختم نبوت کے ثبوت بلکہ خود نبوت ہی کے ثبوت کے کیا معنیٰ؟ کیونکہ نبوت آپ کو چالیس سال کی عمر میں عطا ہوئی اور چونکہ آپؐ سب انبیاء کے بعد میں مبعود ہوئے اس لئے ختم نبوت کا حکم کیا گیا، سو یہ وصف تو خود تاخر کو مقتضی ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ تاخر مرتبۂ ظہور میں ہے، مرتبہ ثبوت میں نہیں، جیسے کسی کو تحصیلداری کا عہدہ آج مل جائے اور تنخواہ بھی آج ہی سے چڑھنے لگے، مگر ظہور ہوگا کسی تحصیل میں بھیجے جانے کے بعد، (علاوہ ازیں) عالم ارواح میں جب ’’الست‘‘ کا عہد لیا گیا اور پوچھا گیا الستُ بربکم؟ تو سب نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا کہ دیکھیں آپ کیا جواب دیتے ہیں؟ تو سب سے اول آپؐ نے جواب دیا: بلیٰ انت ربُّنا، اس کے بعد اوروں نے بلیٰ کہا، لہٰذا اوروں کے علم و معرفت کے مربی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور تربیت فی العلوم حیات پر موقوف ہے، پس نب سے نور مخلوق ہوا ہے اس وقت سے حیات لی جاسکتی ہے۔

یہ تو حیاتِ محمدی (علی صاحبہا الصلوٰۃ و التحیات) کی آغاز کا ذکر ہوا، جس کے بعد آپؐ کی حیاتِ ناسوتی ہے جو اس دنیا میں آپ کی ولادت شریف سے لے کر آپؐ کی وفات مبارک پو ختم ہوتی ہے، اگر نظر کو اور وسیع کیا جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بعدِ وفات بھی حیاتِ برزخی ثابت ہے اور وہ حیاتِ شہداء کی حیات برزخی سے بھی بڑھ کر ہے اور اتنی قوی ہے کہ حیاتِ ناسوتی کے قری قریب ہے، چنانچہ بہت سے احکام ناسوت کے اس پر متفرع بھی ہیں، دیکھئے زندہ مرد کی بیوی سے نکاح جائز نہیں، آپؐ کی امواجِ مطہرات سے بھی نکاح جائز نہیں اور زندہ کی میراث کی تقسیم نہیں ہوتی، آپؐ کی میراث کی بھی تقسیم نہیں ہوئی، اور حدیثوں میں صلوٰۃ و سلام کا سماع بھی وارد ہے، یہ تحقیقات ہیں اہلِ اسرار کی، اس سے اصلی راز ان احکام یعنی لاتنکحوا ازواجہٗ من بعدی اور لا نورثُ ما ترکناہُ صدقۃ کا معلوم ہوگیا۔

پھر حیاتِ برزخی کے بعد حیاِ تِ اخروی ہے اور وہ تو سب ہی کے لئے ہے، تو انبیاء کو تو بطریقِ اولی حاصل ہوگی، پس آپ کی حیات مصداق کا تخلیقِ نور سے خلودِ جنت تک ہے!

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ ناسوتی کی عظمت اور اس کے چار حصّے:

اہلِ عرف اسی (حیات ناسوتی) کو حیات کہتے ہیں، یعنی ولادت شریف سے لے کر وفات تک، پس اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ آپ کی اس حصۂ عمر کی قسم ہے، اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا یہ حصۂ عمر اتنا رفیع الشان ہے کہ اللہ تعالیٰ مقسم بہٖ بنا اور اس حصۂ عمر و حیات کا ایک جزو ولادت شریف ہے، تو اس کا بھی عظیم القدر اور رفیع الشان ہونا ثابت ہوا، اسی طرح اس کا حصہ قوتِ استعداد اور حصولِ کمالات کا ہے، تیسار حصہ تبلیغ و دعوت کا ہے، چوتھا حصہ تکمیلِ امت کا ہے اور یہ تیسرا اور چوتھا حصہ بعض احوال میں بھی ہے، ….. پھر تکمیل کی دو حیثیتیں ہیں، ایک تکمیل حاضر کی خود اس کی اصلاح کے لئے، دوسرے تکمیل حاضر کی اصلاحِ غایت کے لئے، پس ان سب حصوں کی رفعت و عظمت ثابت ہوئی اور کسی شئی کی عظمت و رفعت جس طرح باعتبار اس کی ذات کے ہوتی ہے، اسی طرح باعتبار اس کی غایت کے بھی ہونا چاہئے بلکہ اس کی غایت ہی کی وجہ سے اس شئے کی مقصودیت زیادہ ہوتی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی غایت:

 

پس عالمِ ناسوت میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری (مذکورہ سارے حصوں کے ساتھ) کی بھی کوئی غایت ضرور ہوگی اور وہ غایت ایسی ہے کہ اس کو سن کر مدعیانِ محبت کی بھی اصلاح ہوگی، اس لئے انہوں نے مزیدار مضمون تو دیا کرلئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یوں پیدا ہوئی اور (آپؐ سے) ایسے معجزات ظاہر ہوئے، لیکن اس تشریف آوری کی غایت کو انہوں نے سمجھا ہی نہیں، اس لئے کہ اس کے سمجھنے میں نفس کو تعب ہوتا ہے اور جان نکلتی ہے، ….. وہ غایت وہ شئے ہے جس کا عنوان صوفیہ کی اصطلاح میں فناء اور بقاء ہے، (قرآن کی اصطلاح میں اس کی تزکیہ و تعلیم کتاب کہتے ہیں، اور حدیث میں اس کے لئے ’’مکارمِ اخلاق‘‘ کے الفاظ آئے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس لئے مبعوث ہوا ہوں کہ مکارمِ اخلاق کا تم پر اتمام کروں۔م) پس آپؐ کی تشریف آوری اس وجہ سے ہوئی کہ آپؐ سے فیض فناء اور بقاء کا ہو، مولانا رومیؒ نے کہا ؎

پس  محمدؐ  صد   قیامت  بود  نقد

زانکہ حل شد در فنایش حل و عقد

زادۂ  ثانی  است  احمد  در   جہاں

صد  قیامت   بود   اندر   او  عیاں

(زادۂ ثانی یعنی دوسری ولادت، یہ صوفیاء کی اصطلاح ہے، مراد اس سے طبعی اور نفسانی احکام سے نکل کر مرضیاتِ حق پر آجانا اسی کو دوسرے لفظوں میں بقاء بعد الفناء بھی کہتے ہیں، ان اشعار سے مقصود یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اس صفت میں کامل و اکمل تھے اور اس دنیا میں تشریف بھی اسی لئے لائے تھے کہ انسانوں کو اس صفت سے متصف فرمائیں۔ م)

اوّل یہ سمجھ لیجئے کہ فناء اور بقاء ہے کیا چیز؟

 یہاں فناء و بقاء لغوی نہیں ہے بلکہ یہ تصوف کی اصطلاح ہے، فناء و بقاء سے مراد سالک کی ذات کا فناء و بقاء نہیں ہے، بلکہ اس کا مضاف الیہ ایک خاص شئے ہے، یعنی ’’علم و اخلاق‘‘، سو فنائے اخلاق کی حقیقت تو یہ ہے کہ اخلاقِ رذیلہ کو دور کرے، مثلاً ریاء، کبر، حسد، غضب، حبِ مال اور حبِ جاہ کو دور کرے، اور فنائے علوم یہ ہے کہ یہ جو ہمارے قلب میں غیر اللہ جمع ہورہے ہیں کہیں جائیداد، کہیں دُکان، کسی کو تجارت کے دھندے، کسی کو زراعت کے افکار، کسی کو نوکری کے خرخشے، کسی کو مقدمات کی پریشانیاں اور ان کے متعلق خیالات، یہ سب افکار ہمارے وقت کو تباہ کر رہے ہیں، ان کا قلع قمع کردے، لیکن میرا مطلب یہ نہیں کہ تجارت اور نوکری اور زراعت کو چھوڑدے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان سے متعلق جو خیالات خدا کی یاد سے روکنے والے ہیں ان کو نکال دو، اسی طرح بیٹے اور بیوی کی محبت سے مراد بھی اس درجہ کی محبت ہے جو خدا کی یاد سے غافل کردے، چنانچہ ارشاد ہے:

اوّل یہ سمجھ لیجئے کہ فناء

قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ۔ (التوبۃ:۲۴)

(اے محمدؐ) کہدیجئے! اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور بیویاں اور کنبہ اور وہ اموال جن کو تم کماتے ہو اور وہ تجارت جس کی نکاسی نہ ہونے سے ڈرتے ہو اور وہ مکان جن کو تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسولؐ اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب ہیں، تو منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لائے۔

پس اس آیت کو دیکھ لیجئے کہ وعید احبیت پر ہے نفسِ حب پر نہیں، اس لئے کہ وہ تو خلقی اور طبعی ہے، اس کو آدمی کیسے زائل کرسکتا ہے؟ پس فنائے علم سے مراد یہ نہیں کہ بالکل ان کا خیال ہی نہ رہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ قلب میں خدائے تعالیٰ سے زیادہ کسی کی محبت نہ ہو، پس حکم یہ ہے کہ احبیت کے درجہ کو درو کرے۔

پس فنائے اخلاق و علوم کا خلاصہ یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی اطاعت میں اتنا سرگرم ہو کہ غیر اللہ کی محبت اور غیر اللہ کا ذکر مغلوب اور اخلاقِ ذمیمہ زائل ہوجائیں گی، لہٰذا جو چیزیں زائل کرنے کی ہیں ان کےزائل کرنے اور جو مغلوب کرنے کی ہیں ان کو مغلوب کرنے کو ’’فناء‘‘ کہتے ہیں۔

رہا ’’بقاء‘‘ تو زائل شدہ اشیاء کی اضداد کے پیدا کرنے اور مغلوب ضد کو غالب کرنے کو ’’بقاء‘‘ کہتے ہیں، مثلاً ریاء کو زائل کرے، اس کےمقابل میں اخلاص پیدا کرے، یا کبر کو فناء کرے اور اس کی جگہ تواضع پیدا کرے، حب غیر کو مغلوب کرے اور حبُّ اللہ کو غالب کرے، غیر کے ذکر کو مغلوب کرے اور ذکر اللہ کو غالب کرے، یہ ہے بقاء، اور ……..

یہی غایت ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی کہ اپنے فیضانِ علمی و عملی و حالی سے اس امت کی تکمیل فرمادیں، پس حاصلِ غایت تشریف آوری کا یہ ہوا کہ امت آپؐ کی کامل اتباع اختیار کرے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام نعمتوں کا سرچشمہ اور تمام عالموں کے لئے رحمت ہیں!

اس میں کسی مسلمان کو شک و شبہ نہیں کہ حق تعالیٰ کی ہر نعمت قابلِ شکر ہے، خاص کو جو بری نعمت ہو، پھر خصوصاً دینی نعمت اور دینی نعمتوں میں سے بھی خاص جو بڑی بڑی نعمتیں ہوں، پھر ان میں بھی خصوصاً وہ نعمت جو اصل ہے تمام دینی و دنیوی نعمتوں کی اور وہ نعمت کیا ہے؟ حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کہ آپ سے دنیوی نعمتوں کے فیوض تو دنیا میں فائض ہوئے ہی ہیں، دینی نعمتوں کا سرچشمہ بھی آپ ہی ہیں ،اور صرف مسلمانوں ہی کے لئے نہیں بلکہ تمام عالم کے لئے، چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اوّل یہ سمجھ لیجئے کہ فناءوَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ۔ (الانبیاء:۱۰۷)

نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر جہانوں کی رحمت کے واسطے۔

دیکھئے عالمین میں کوئی تخصیص انسان یا غیر انسان، مسلمان یا غیر مسلمان کی نہیں ہے، پس معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود باجُودہر شئے کے لئے باعثِ رحمت ہے، خواہ وہ جنسِ بشر سے ہو یا غیر جنسِ بشر سے، اور خواہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زمانہ متأخر ہو یا متقدم، متأخرین کے لئے رحمت ہونا تو بعید نہیں لیکن پہلوں پر رحمت ہونے کے لئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک وجود سب سے پہلے پیدا فرمایا، اور وہ وجود نور کا ہے کہ آپؐ اپنے وجودِ نوری سے سب سے پہلے مخلوق ہوئے اور عالمِ ارواح میں اس نور کی تکمیل و تربیت ہوتی رہی، آخر زمانہ میں اس امت کی خوش قسمتی سے اس نے جسدِ عنصری میں جلوہ گر و تاباں ہوکر تمام عالم کو منوّر فرمایا، پس حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اولاً و آخراً تمام عالم کے لئے باعثِ رحمت ہیں، پس آپؐ کا وجود تمام نعمتوں کی اصل ہونا عقلاً و نقلاً ثابت ہوا۔

اصل خوشی اور فرحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وجودِباجُود ہی پر ہونا چاہئے!

اوّل یہ سمجھ لیجئے کہ فناءقُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ۔ (یونس:۵۸)

اس مقام پر ہر چند کہ آیت کے سباق پر نظر کرنے کے اعتبار سے قرآن مجید مراد ہے، لیکن اگر عام معنیٰ مراد لئے جائیں کہ قرآن مجید بھی اس ایک فرد رہے تو یہ زیادہ بہتر ہے اور وہ یوں کہ فضل اور رحمت سے مراد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قدومِ مبارک (تشریف آوری) لیا جائے، اس تفسیر کے موافق جتنی نعمتیں اور رحمتیں ہیں خواہ وہ دنیوی ہوں یا دینی، اور اس میں قرآن مجید بھی ہے سب اس میں داخل ہوجائیں گی، اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجودِ باجود اصل ہے تمام نعمتوں کی اور مادّہ ہے تمام رحمتوں اور فضل کا، پس یہ تفسیر اجمع التفاسیر ہوجائے گی اور آیت حاصل یہ ہوگا کہ ہم کو حق تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں کہ نبیؐ کے وجود باجود پر خواہ وجودِ نوری ہو یا ولادتِ ظاہری اس پر خوش ہونا چاہئے، اس لئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے تمام نعمتوں کا واسطہ ہیں، حتی کہ ہم کو جو روٹیاں دو وقتہ مل رہی ہیں اور تندرستی اور ہمارے علوم یہ سب آپؐ ہی کی بدولت ہیں اور یہ نعمتیں تو وہ ہیں جو عام ہیں اور سب سے بڑی دولت ایمان ہے، جس کا آپؐ سے ہم کو پہنچنا بالکل ظاہر ہے، غرض اصل الاصل تمام مواد فضل و رحمت کی آپؐ کی ذاتِ بابرکات ہوئی، پس ایسی ذاتِ بابرکات کے وجود پر جس قدر بھی خوشی اور فرحت ہو کم ہے۔

فنّی تشریح:

 

 بہر حال اس آیت سے عموماً یا خصوصاً یہ ثابت ہوا کہ اس نعمتِ عظیمہ پر خوش ہونا چاہئے اور ثابت بھی ہوا نہایت ابلغ طرز سے، اس لئے اول تو جار مجرور بفضل اللہ کو مقدم لائے کہ جو مفید حصر کو ہے، اس کے بعد رحمۃ پر پھر جار کا اعادہ فرمایا کہ جس سے اس میں استقلال کا حکم پیدا ہوگیا، پھر اسی پر اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ اس کو مزید تاکید کے لئے فبذٰلک سے مکرر ذکر فرمایا اور ذٰلک پر جار اور فاءِ عاطفہ لائے تاکہ اس میں اور زیادہ اہتمام ہوجائے، پھر نہایت اہتمام در اہتمام کی غرض سے فلیفرحوا پر فاء لائے کہ جو مشیر ہے ایک شرط مقدر کی طرف اور وہ ان فرحوا بشیئ ہے، حاصل یہ ہوا کہ اگر کسی شئے کے ساتھ خوش ہوں تو اللہ ہی کے فضل و رحمت کے ساتھ، یعنی اگر دنیا میں کوئی شئے خوشی کی ہے تو یہی نعمت ہے، اور اس کے سواء کوئی شئے قابلِ خوشی نہیں ہے، اور اس سے بدلالۃ النص یہ بھی ثابت ہوگیا کہ یہ نعمت تمام نعمتوں سے بہتر ہے، لیکن چونکہ ہم لوگوں کی نظروں میں دنیا اور دنیا ہی کی نعمتیں ہیں اور اسی میں ہم کو انہماک ہے اس لئے اس پر بس نہیں فرمایا، آگے اور نعمتوں پر اس کی تفصیل کے لئے صراحتاً ارشاد ہوا ھو خیر مما یجمعون یعنی یہ نعمت ان تمام چیزوں سے بہر ہے جن کو لوگ جمع کرتے ہیں، یعنی دنیا بھر کی نعمتوں سے یہ نعمت افضل و بہتر ہے، پس جس نعمت پر حق تعالیٰ اس شد و مد کے ساتھ خوش ہونے کا حکم فرمادیں وہ کس طرح خوش ہونے کے قابل نہ ہوگی؟! یہ حاصل ہوا اس آیت کا جو مبنی ہے اس پر کہ فضل اور رحمت سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مراد لئے جائیں۔

مگر اس فرح کی بناء‘ حیثیت اور جہت کیا ہے؟

دوسرے مقام پر اس سے بھی صاف ارشاد ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعی خوشی کی شئے دنیا میں اگر ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اور اس میں بات الفرح یعنی آپؐ کے وجود باجود پر جو خوشی کا امر ہے وہ کسی بناء پر ہے اور حیثیت و جہتِ فرح کیا ہے؟ وہ آیت یہ ہے:

اوّل یہ سمجھ لیجئے کہ فناءلَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ۔ (اٰل عمران:۱۶۴)

یعنی حق تعالیٰ نے مومنین پر احسان فرمایا کہ ان میں ایک رسول ان ہی کے جنس سے بھیجا کہ وہ ان پر اس کی آیتیں تلاوت کرتے ہیں، ان کو (ظاہری و باطنی) نجاستوں اور گندگیوں سے پاک کرتے ہیں اور ان کو کتاب و حکمت سکھلاتے ہیں اور بے شک وہ (مومنین) اس سے پہلے ایک کھلی گمراہی میں تھے۔

اس آیت میں يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ الخ سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ اصلی خوشی کی اور الفرح و المنت کی بناء یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے سرمایۂ ہدایت ہیں، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خوش ہونے کی بہت سی چیزیں ہیں، مثلاً آپؐ کی ولادت، آپؐ بعثت اور آپؐ کے دیگر تمام حالات، مثلاً معراج وغیرہ، یہ سب حالات واقعی خوش ہونے کے ہیں، لیکن اس حیثیت سے کہ ہمارے لئے یہ مقدمات ہیں ہدایت و سعادتِ ابدی کے، چنانچہ اس سے صاف ظاہر ہے اس لئے کہ بعثت کے ساتھ یہ صفات بھی بڑھائی کہ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ الخ پس بقاعدۂ بلاغت ثابت ہوا کہ اصل مابہ المنت یہ صفات ہیں، باقی ولادتِ شریفہ فی نفسہا یا معراج وغیرہ باعثِ خوشی زیادہ اسی لئے ہیں کہ مقدمہ ہیں اس دولتِ عظیمہ کے، اس لئے کہ اگر ولادتِ شریفہ نہ ہو ہوتی تو ہم کو یہ نعمت کیسے ملتی وار اسی فرق کی وجہ سے اس یت میں تو اس مقصود کا ذکر تصریحاً اور قصداً فرمایا اور دوسری آیت (جس کی صراحت مضمون کی ابتداء میں آچکی) میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجودِ باجود کا ذکر اشارۃً و ضمناً فرمایا، چنانچہ ارشاد ہے: لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ۔ (الحجر:۷۲) اس میں آپؐ کی بقاء اور وجود کو مقسم بہٖ بنایا اور یہ ظاہر ہے کہ قسم میں جوابِ قسم مقصود ہوتا ہے اور مقسم بہٖ کو تبعاً ذکر کیا جاتا ہے، اور ایک مقام پر آپؐ کی ولادتِ شریفہ کو بھی اسی طرح ذکر کیا گیا ہے، فرماتے ہیں: لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ۔ وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ۔ وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ۔ (البلد:۱ تا ۳) چنانچہ وَمَا وَلَدَ کی تفسیر میں بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس کی مصداق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ والا صفات ہے، مگر اس اہتمام سے نہیں فرمایا جیسا کہ لقد منَّ اللہ الخ میں نبوت اور بعثت اور ہدایت اور تزکیہ کو بیان فرمایا ہے، اور اسی فرق کی وجہ سے فرحت میں بھی تفاوت ہوگا کہ جس قدرت ولادتِ شریفہ پر فرحت ہونی چاہئے اس سے زائد نبوتِ مبارکہ پر ہونی چاہئے، اگر ذکرِ ولادت شریفہ کے لئے مجلس منعقد کی جائے تو ذکرِ نبوت مبارکہ کے لئے بطریق اولیٰ کی جائے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اَن گنت حقوق و آداب!

ہر امتی کو یہ سمجھنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارے چند تعلقات ہیں: (۱) ایک تعلق یہ ہے کہ آپؐ نبی ہم امتی، (۲) دوسرے یہ کہ آپ حاکم ہم محکوم، (۳) تیسرا تعلق یہ کہ آپ دارین میں محسن، ہم زیر بارِ احسان، (۴) چوتھا تعلق یہ کہ آپؐ محبوب اور ہم محب، اور ان میں سے ہر تعلق جب کسی کے ساتھ ہوتا ہے تو اس پر خاص خاص حقوق و آداب کا مرتب ہونا معلوم، مسلَّم اور معمول ہے، پس جب آپؐ کی ذاتِ بابرکات میں سب تعلقات مجتمع ہوں اور پھر سب اعلیٰ و اکمل درجہ کے، تو آپؐ کے حقوق بھی ظاہر ہے کہ کس قدر اور کس درجہ کے ہوں گے، ان سب کے ادا کرنے دل سے اور التزام سے ایسا اہتمام ہونا چاہئے کہ وہ کثرت عادت استحضارِ الفت سے شدہ شدہ طبعی ہوجائیں اور پھر بھی آپ کے مقابلہ میں اپنی اس خدمت کو کہ درحقیقت اس کا نفع اپنی ہی طرف عائد ہے نا تمام سمجھے!

بقعۂ نبویؐ عرش سے بھی افضل ہے!

 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر موافقین و مخالفین سب کے نزدیک بالاتفاق محفوظ ہے اور مع روح ہے، اور علماء نے بھی تصریح کی ہے کہ وہ بقعۂ جس سے جسم مبارک خصوص مع الروح مَس کئے ہوئے ہے وہ عرش سے بھی افضل ہے، کیونکہ عرش پر معاذ اللہ حق تعالیٰ شانہ بیٹھے ہوئے تو نہیں ہیں، اگر بیٹھے ہوتے تو بلاشبہ وہ جگہ سب سے افضل ہوتی، مگر خدائے تعالیٰ مکان سے پاک ہے، استویٰ علی العرش کے معنیٰ استقرار کے نہیں ہوسکتے، اس میں سلف کا مسلک تو سکوت کا ہے اور واقعی اسی میں سلامتی ہے، مگر متأخرین نے مصلحتِ وقت کے تحت مناسب تاویل کی اجازت دی ہے، اور ایک تاویل میرے ذہن میں اس آیت کی آئی ہے جو دوسری تاویلات کی بہ نسبت اقراب اور بہت صاف ہے، …. اگرچہ کہ میرا مذاق اس معاملہ میں سلف ہی کے موافق ہے ….. وہ تاویل یہ ہے کہ ان آیات میں استویٰ علی العرش کے بعد …. یدبِّرُ الامر بھی آیا ہے، جس کو استویٰ علی العرش کا بیان قرار دیا جائے تو یہ محاورہ ایسا ہوجائے گا جیسے ہماری زبان میں بولا جاتا ہے کہ ولیعہد تخت نشین ہوگیا، عرف میں اس کے معنیٰ حکمران ہونے کے ہیں، خاص تخت پر بیٹھنے کے نہیں، اسی طرح استویٰ علی العرش کے معنیٰ تدبیر و حکمرانی فرمانے کے ہیں، یعنی زمین و آسمان پیدا کرکے حق تعالیٰ شانہ ان میں حکمرانی، تدبیر اور تصرف فرمانے لگے، بس یہ کنایہ ہوگا، تو عرش کے محل استقرار حق کی وجہ سے فضیلت نہیں ہے کہ وہ بقعۂ شریف سے افضل ہوجاتا ہے، اس کو صرف اسی وجہ سے اور اماکن پر فضیلت ہے کہ وہ ایک تجلی گاہِ الہٰی ہے، اور ظاہر ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تجلی گاہ کون ہوگا، پس اس حیثیت کے اثر سے بھی بقعۂ شریف خالی نہ رہا، اس لئے ہر طرح وہ جگہ جہاں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں سب سے زیادہ اشرف ہوئی، کیونکہ تجلیاتِ حق بواسطۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ تمام اماکن سے زیادہ فائض ہوتے ہیں، پس بقعۂ شریف و قبر شریف تمام اماکن سے افضل ہے۔
اللھم انی اسئلک ان تصلی علی نورک الاتم و حبیبک الافخم الذی اشرق بہ الاکوان و افتخر بہ الانسان، وسلیۃ السالکین و سکینۃ الطالبین سیدنا و مولانا محمدٍ و اٰلہ و صحبہ اجمعین و علینا معھم و فیھم برحمتک یا ارحم الراحمین۔ (جامع)