Kalima e Tayyeba Mein Teen Haal

Kalima e Tayyeba Mein Teen Haal

کلمۂ طیبہ میں تین حال

کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہﷺ کے زبانی اقرار اور تسلیم کرنے ہی سے کوئی شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے اور اسی کلمہ کی دل سے تصدیق پر مسلم مؤمن ہوتا ہے اور تین حال کا استحضار کرنے ہی سے مؤمن ولی ہوتا ہےKalima e Tayyeba Mein Teen Haal

ہے۔ کو ،ہے،کہنا توحید ہے اور۔نہیں ، کو، نہیں ،کہنا توحید ہے ۔تین حال اسی توحید کے تین مراتب ہیں ۔اقرار وتسلیم زبان ے حاصل ہوتے ہیں ،تصدیق دل سے حاصل ہوتی ہے ، اور استحضار اللہ کو غالب رکھنے سے حاصل ہوتا ہے ۔مسلم وہ جو اللہ کو صرف زبانہی زبان سے یاد کرے

مؤمن وہ ہے جو اللہ کو نہ صرف زبان سے یاد کرے بلکہ دل سے بھی یاد کرے ۔اور ولی وہ ہے جو اللہ کو نہ صرف زبان وقلب سے یاد کرتا ہے بلکہ اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا ۔

ولی کی تعریف یہ ہے کہ وہ خود اللہ کی یادسے مجسم  بن جائے کہ دوسرے لوگ جو کسی بھی غرض سے اس کی صحبت میں ہیں انہیں بھی اللہ کی یاد دلائے ۔

حال اوّل

انسان اپنی تخلیق میں جماد نبات اور حیوان کے مراتب سے گذرتا ہے ہر نسان پہلے رحم مادر مین نطفہ ہوتا ہے اسکے بعد علقہ یا خون کی پھٹکی بنتا ہے اسکے بعد مضغہ یالوتھڑے میں تبدیل ہوتا ہے پھر عظام یا ہڈیاں پیدا ہوتی ہیں پھر سے آخر میں ان ہڈیوں پرلحم یا گوشت چڑھایا جاتا ہے اسی تفصیل کو قرآن شریف کی حسب ذیل آیت میں ظاہر فرمایا گیا ہے

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَأْنٰہُ خَلْقًا آخَرَ، فَتَبَارَکَ اﷲُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ۔

جب یہ ڈھانچہ تیار ہوجاتا ہے تو یہی انسان کا نمونہ ہوتا ہے

اس نمونہ میں جماد کی سی کیفیت موجود ہے کیونکہ اسکا گوشت اور ہڈیاں جماد جیسے ہیں اور یہی نمونہ نبات سے بھی مشابہ ہے کیونکہ اس میں نشو نما کی صلاحیت بھی ہے اس نمونہ کو اس زمانہ میں انسان اور حیوان سے زیادہ جماد اور نبات کہنا مناسب ہوتا ہے جبکہ وہ رحم مادر میں تین ماہ کا ہو کیونکہ اس نمونہ میں غلبہ جماد و نبات کا ہوتا ہے اور یہ سب ارتقا تین ماہ کے دوران رحم مادر میں اللہ کی صفت خلاقیت سے طے پاتا ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اولاً جمادی اور پھر باتی روح اس نمونہ انسان سے متعلق کردیتی ہے یہ دونوں ارواح وہ تمام چیزیں بالقویٰ رکھتی ہیں جن کو آئندہ اللہ پاک اس انسان کو عنایت کرتے ہین تین ماہ گذرنے کے بعد جب اللہ تعالیٰ دیکھتے ہیں کہ یہ نمونۂ انسانی مردہ ہے مضطر ہے جاہل ہے عاجز ہے بہرہ ہے اندھا ہے اور گونا ہے تو اپنی کمالِ رحمت سے اس سے روح حیوانی جو پرتو روح انسانی ہے متعلق کردیتے ہیں اس وقت مردہ زندہ ہوتا ہے بہرہ سماعت پاتا ہے اور اندھا بصارت پاتا ہے اور گونگا کلام پاتا ہے یہ سب صفات اس نمونۂ انسانی میں چوتھے ماہ سے نویں ماہ تک حیوانی صفات کے مشابہ ہوتے ہیں اس زمانہ میں اس نمونہ کو انسان سے زیادہ حیوان کہنا مناسب ہوتا کیونکہ اس میں غلبہ حیوان کا زیادہ ہوتاہے نو ماہ بعد جب یہ نمونہ پیدا ہوتا ہے تو یہ انسان نہیں بلکہ انسان کا بچہ ہوتا ہے پیدائش کے بعد سے اس بچہ پر وہ دور شروع ہوتا ہے جو خالص انسانی دو ہوتا ہے اب انسان کہنا زیادہ مناب ہوتا ہے کیونکہ اس دور میں اس کی جماد اور جمادی روح اور نبات اور نباتی روح ہردو انسان اور انسانی روح کے تابع ہوجاتے ہیں ،

اس دور میں جسم کو حرکت دل سے ہوتی ہے دل کو حرکت روح سے ہوتی ہے اور روح کو حرکت حق سے ہوتی ہے اس کو تفصیل سے وں کہہ سکتے ہیں کہ روح حی کا مظہر اور دل علیم کا مظہر اور نفس مرید کا مظہر جسم قدیر کا مظہر آنکھ بصیر کا مظہر کان سمیع کا مظہر اور زبان کلیم کا مظہر ہے اس کی تصدیق اپنے پہلے حال کا اقرار ہے اور یہ اقرار وتصدیق اس تو حید کا پہلا مرتبہ ہے جسکو ہے کو ہے اور نہیں کو نہین کہتے ہیں

حال دوم

دوسرا حال حق کے وجود اور صفات وجودیہ خلق کے ودم اور صفات عدمیہ سے متعلق ہے جس کی تفصیل یوں ہیکہ تمام عالم کا وجود پرتو وجود حق ہے تمام عالم کی حیات پرتو حیات حق ہے تمام کا علم تو علم حق ہے تمام عالم کا ارادہ پرتو ارادہ حق تمام عالم کی قدرت پرتو قدرت حق تمام عالم کی سماعت پر تو سماعت حق تمام عالم کی بصارت پر تو بصارت حق اور تمام عالم کا کلام پرتو کلام حق ہے ان کی تصدیق اپنے دوسرے حال کا اقرار ہے یہ اقرار و تصدیق اس توحید کا دوسرا مرتبہ ہے جسکو ہے کو ہے اور نہیں کو نہیں کہتے ہیں ۔

حال سوم

پہلے دو حال میں اللہ کی صفات وجودیہ کو بیان کیا گیا ہے ان صفات وجودیہ کو اللہ کے صفات ذاتی یا امہات الصفات بھی کہتے ہیں؛ اب ہم اللہ کے دیگر اسماء اور صفات آثاری یا اضافی کو لینگے جنکا بیان اس تیسرے حال میں کیا جاتا ہے

ذات خلق سب آثار اللہ ہیں آثار میں ذات حق مؤثر ہوتی ہے اور ذات خلق متأ ثر ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات آثاری یا اضافی حسب ذیل ہیں۔

(۱) اللہ کے اسم ہادی کا ظہور مسلم میں ہوتا ہے

(۲) اللہ کے اسم مضل کا ظہور غیر مسلم میں ہوتا ہے

(۳) اللہ کے اسم نافع کا ظہور کائنات کا سارا نفع ہے

(۴)ا للہ کے اسم ضارکاظہورکائنات کاسب کچھ نقصان ہے

(۵)اللہ کے اسم ودود کا ظہر کائنات کی ساری محبت ہے

(۶)اللہ کے اسم قاہر کا ظہور کائنات میں پائی جانے والی سب دشمنی ہے

(۷)اللہ کے اسم عزیزکاظہورکائنات کی ساری عزت میں ہے

(۸)اللہ کے اسم مذل کا ظہور کائنات کی ذلتوں میں ہے

(۹)اللہ کے اسم معبود کا ظہور کائنات کی ساری عبادتوں میں ہے

(۰۱)اللہ کے اسم داع کا ظہورکائنات کے فضلات میں ہے

(۱۱)الہ کے اسم طاہر کا ظہور کائنات کی صفائی غسل و وضوسے ہے

(۱۲)اللہ کے محیکا ظہور ر صاحب حیات میں ہے

(۱۳)اللہ کے اسم ممیت کاظہورتمام مرنے والوں میں ہوتاہے

(۱۴)اللہ کے اسم ستار کا ظہور ہر قسم کے لباس مین ہے

(۱۵)اللہ کے اسم رزاق کا ظہور ہر ایک کے رزق میں ہوتا ہے

(۱۶)اللہ کا اسم معطی کا ظہور کائنات کی ہر عطا میں ہے

(۱۷)اللہ کے اسم قابض کاظہورہرمقبوضہ شئی میں ہوتا ہے

(۱۸)اللہ کے اسم خالق کا ظہور ہر پیدا ہنے واے میں ہے

اسی طرح باقی اور اسما کو بھی قیاس کرلیا جائے یہ ساری تفصیل ہے انھیں اجمالی طور سے بھی بیان کیا جاتا ہے ۔اگر کوی تفصیل کے بجائے اجمال ہی کو یاد رکھ لے تو بھی کافی ہے جو ذیل میں درض ہے

التوحید اسقاط الاضافات

اضاتوں کا ساقط کرناتوحید ہے اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ آثار میں مؤثر ذات حق کو جاننا اور ذات خلق کو متأ ثر جاننا ہے

اس کے تین ضمن ہیں (۱)ملکیت(۲)نعمت(۳)فعل۔

(۱) ملکیت:۔ہرتملیک میں مالک حقیقی اللہ ہی کوجانناصدق ہے کسی تملیک میں غیر اللہ کو مالک جاننا کذب ہے ۔

(۲) نعمت:۔ہر نعمت مین منعم حقیقی اللہ ہی کو جاننا صدق ہے اورکسی بھی نعمت میں غیراللہ کومنعم جانناکذب ہے۔

(۳)فعل:۔ ہر فعل میں فاعل حقیقی اللہ ہی کو جاننا صدق ہے اور کسی فعل میں غیر اللہ کو فاعل جاننا کذ ہے ۔

توحیدکیلئے صدق کااثبات اورکذب کی نفی کرناضروری ہے

ان کی تصدیق اپنے تیسرے حال کا اقرار یہ اقرار اور تصدیق اس توحید کا تیسرا مرتبہ ہے جس کو ہے کو ہے اور نہیں کو نہیں کہتے ہیں ۔