Aqwal e Zareen Hazrath Ibrahim Ibn Adham RA

Aqwal e Zareen Hazrath Ibrahim Ibn Adham RA

اقوالِ زرین – حضرت ابراہیم بن ادہمؓ(م:۸۹۴ء ، ۱۶۱ھ)

۱۔ایک مرتبہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں دعا قبول فرمانے کا وعدہ کیا ہے فرمایا:

“ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ”

(غافر:۶۰)Aqwal e Zareen Hazrath Ibrahim Ibn Adham RA

“تم مجھ سے دعا مانگو میں قبول کروں گا”
مگر ہم بعض کاموں کے لئے زمانہ دراز سے دعا کررہے ہیں ،قبول نہیں ہوتی،اس کا سبب کیاہے؟آپ نے فرمایا “تمہارے قلوب مردہ ہوچکے ہیں اور مردہ دلوں کی دعا قبول نہیں ہوتی “دل کی موت کے اسباب یہ ہیں:

۱۔تم نے حق تعالیٰ کو پہچانا مگر اس کا حق ادا نہیں کیا۔

۲۔تم نے کتاب اللہ کو پڑھا مگر اس پر عمل نہیں کیا۔

۳۔تم نے محبت رسول ﷺ کا دعویٰ تو کیا مگر آپ کی سنت کو چھوڑ بیٹھے۔

۴۔شیطان کی دشمنی کا دعویٰ کیا مگر اعمال میں اس کی موافقت کی۔

۵۔تم کہتے ہو کہ ہم جنت کے طالب ہیں مگر اس کے لئے عمل نہیں کرتے۔

(کتاب الاعتصام:۱/۱۰۶)

۲۔ابراہیم بن ادھم ؒ نے ایک شخص سے طواف کرتے ہوئے کہا “جان لو! جب تک تم یہ چھ گھاٹیاں عبور نہ کرلو” صالحین کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے:

۱۔نازونعمت کا دروازہ بند کردو اورسختی کا دروازہ کھول لو۔

۲۔عزت کا دروازہ بند کرکے ذلت کا دروازہ کھول لو۔

۳۔آرام،راحت وآسانی کا دروازہ بند کرکے محنت کا دروازہ کھول لو۔

۴۔سونے کا دروازہ بند کرکے جاگنے کا دروازہ کھول لو۔

۵۔مالداری کا دروازہ بند کرکے فقر وفاقہ کا دروازہ کھول لو۔

(الرسالۃ القشیریۃ:۱۴)

۳۔سمجھ دار اوردانش مند انسان دنیا سے نکلنے سے پہلے دنیا سے نکل چکا ہوتا ہے۔

(الرسالۃ القشیر:۳۰۶)

۴۔ہم نے فقر مانگا تو مالداری نے ہمارا استقبال کیا،لوگوں نے مالداری مانگی تو فقر نے ان کا استقبال کیا۔

(الرسالۃ القشیریۃ:۳۷۵)

(۱)جس کی یہ خواہش ہو کہ لوگ اسے اچھائی سے یاد کریں وہ نہ متقی ہے اور نہ مخلص ۔

(۲)میں ایک پتھر کے پاس سے گزرا اس پر لکھا ہوا تھا ، تو اپنے علم کے مطابق عمل تو کرتا نہیں تو زیادتئ علم کا کیونکر خواستگار ہے۔

(۳)بخیل پر تعجب ہے کہ دنیاوی مال اپنے دوستوں پر خرچ کرنے سےدل چراتا ہے اور جنت جیسی چیز کی سخاوت اپنے دشمنوں پر کرتا ہے ۔

(۴)تین قسم کے آدمیوں کو انکی بے چینی اور بے تابی پر ملامت نہیں کرنی چاہئے :مریض روزہ دار اور مسافر ۔

(۵)قیامت کے دن بندوں کا محاسبہ ان کے جان پہچان کے لوگوں کے سامنے ہوگا تاکہ پوری فضیحت اور شرمندگی ہو ۔

(۶)آپ سے کسی عالم نے نصیحت کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا کہ دُم بن کر رہو سردار نہ بنو اس لئے کہ دُم نجات پاجاتی ہے اور سَر ہلاک ہوجاتا ہے ۔

(۷)جو آرام چاہتا ہو وہ مخلوق کا خیال دل سے نکال دےاس کو راحت نصیب ہوجائے گی ۔

(۸)جو بندہ شہرت و نام وری چاہتا ہے وہ اللہ کے ساتھ سچا معاملہ نہیں کرہا ہے ۔

(۹)بھیک مانگنے والے بھی بڑے اچھے لوگ ہیں ہمارا زادِ راہ مفت میں آخرت تک پہونچادیتے ہیں ۔
بہ شکریہ انوارِ اسلام