Aqwal e Zareen – Hazrath Ali Razi Allahuanhu

Aqwal e Zareen – Hazrath Ali Razi Allahuanhu

سیدنا حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا شمار اسلام کے بہت برگزیدہ بزرگوں میں ہوتا ہے، آپ کو فقہ پر عبور حاصل تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی اور داماد تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تمام ہی غزوات میں بہادری کا مظاہرہ کیا، سیدِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جہاد سے پردہ فرمانے کے بعد حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے حکومتی کاموں میں مشیر خاص اور پُر اعتماد ساتھی رہے، آپ تقریباً ۶۰۱ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور ۵۹ برس کی عمر میں ۶۶۰ء کو مسجد میں شہید ہوگئے، عبد الرحمن ابن ملجم نے آپ بحالتِ نماز شہید کیا، آپ کا تقریباً ساڑھے چار سالہ دورِ خلافت فتنوں و فسادوں اور آزمائشوں میں گذرا، آپؓ کے دورِ خلافت میں دو بڑی جنگیں خود مسلمانوں کے درمیان لڑی گئیں جن میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے

آپؓ کے اقوالِ پُر حکمت ملاحظہ فرمائیں:

(۱) خندہ پیشانی سے پیش آنا سب سے بڑی نیکی ہے۔(۲) انسان کی بزرگی کم گفتاری میں اور فضیلت تحمل و برداشت کا مظاہر کرنے میں ہے۔Aqwal e Zareen - Hazrath Ali Razi Allahuanhu

(۳) خلق خدا کے ساتھ نیکی کرنے سے جس قدر شکر گذاری ہوتی ہے وہ اور کسی صورت ممکن نہیں۔

(۴) جب مومن کا خلق اچھا ہو تو کلام لطیف ہوجاتا ہے۔

(۵) جب کسی کے احسان کا بدلہ اتارنے سے تمہارے ہاتھ قاصر رہیں تو زبان سے ضرور اس کا شکریہ ادا کرو۔

(۶) جو حقوق تمہارے نفس کے ذمہ ہیں ان کے ادا کرنے کا تم خود سے تقاضا کرو، تاکہ تم اواروں کے تقاضے سے محفوظ رہو۔

(۷) انسان کے چہرے کا حسن اللہ تعالیٰ کی عمدہ عنایت ہے۔

(۸) کارخانۂ قدرت میں فکر کرنا بھی عبادت ہے۔

(۹) دوسروں کے حال پر غور کرنے سے نصیحت حاصل ہوتی ہے۔

(۱۰) عقلمند آدمی ہمیشہ فکر اور غم میں مبتلا رہتا ہے۔

(۱۱) برائیوں سے پرہیز کرنا نیکیاں کمانے سے بہتر ہے۔

(۱۲) اگرچہ کوئی قدر شناس نہ ملے مگر تم اپنی نیکی بند نہ کرو۔

(۱۳) عقیدہ میں شک رکھنا شرک کے برابر ہے۔

(۱۴) صدق دل کے ساتھ سو رہنا اس نماز سے کہیں اچھا ہے جو شک کے ساتھ ادا کی جائے۔

(۱۵) جب تک آدمی کا حال پوری طرح معلوم نہ ہو اس کی نسبت بزرگی کا اعتقاد نہ رکھو۔

(۱۶) قابلِ صحبت بہت کم لوگ ہوتے ہیں۔

(۱۷) بدکاروں کی صحبت سے بچو کیونکہ برائی برائی سے جلد مل جاتی ہے۔

(۱۸) بے موقع حیاء بھی باعثِ محرومی ہے۔

(۱۹) گناہوں سے نادم ہونا بھی گناہوں سے معافی مانگنے جیسا ہے۔

(۲۰) گناہوں پر نادم ہونا ان کو مٹادیتا ہے اور نیکیوں پر غرور کرنا نیکیوں کو برباد کردیتا ہے۔

(۲۱) برا کام لوگوں کے سامنے کرنا مناسب نہیں بلکہ اُسے چھپ کر بھی نہ کرو۔

(۲۲) مشورہ باعث تقویت ہے۔

(۲۳) شکر نعمت کا باعث اور ناشکری حصولِ زحمت کا باعث ہے۔

(۲۴) کسی دوسرے کے گرنے سے خوش مت ہونا، تمہیں کیا معلوم کہ کل تمہارے ساتھ کیا ہوگا؟

(۲۵) ادب بہترین کمالات اور خیرات افضل ترین عبادات میں سے ہے۔

(۲۶) سخاوت کے ساتھ احسان رکھنا نہایت کمینگی ہے۔

(۲۷) بہترین بخشش وہ ہے جو سوال سے پہلے کی جائے۔

(۲۸) مال فتنوں کا سبب، حوادت کا ذریعہ، تکلیف کا باعث اور رنج و مصیبت کی سواری ہے۔

(۲۹) بےشک لوگ سونے چاندی کی نسبت اچھے ادب کے زیادہ بخیل ہو وہ اپنی عزت کے دینے میں اسی قدر سخی ہوتا ہے۔

(۳۰) دولتمندی کی مستی سے اللہ کی پناہ مانگو، یہ ایسی لمبی مستی ہے کہ اس ےس بہت دیر میں ہوش آتا ہے۔

(۳۱) جو شخص مال دینے میں زیادہ بخیل ہو وہ اپنی عزت کے دینے میں اسی قدر سخی ہوتا ہے۔

(۳۲) دولت، حکومت اور مصیبت میں انسان کی عقل کا امتحان ہوتا ہے۔

(۳۳) کمینوں کی دولت تمام مخلوق کے لئے مصیبت ہے۔

(۳۴) تنگ دستی جسے لوگ معیوب سمجھیں اس مالداری سے اچھی ہے جس سے انسان گناہوں اور خرابی میں مبتلا ہوکر ذلیل و خوار ہو۔

(۳۵) تنگ دست آدمی جو رشتہ داروں سے میل ملاپ رکھے اس مالدار سے اچھا ہے جو ان سے قطع تعلق رکھے۔

(۳۶) تنگ دستی میں سخاوت کی کوئی صورت نہیں اور کھانے کی حرص کے ساتھ اچھی صحت کی کوئی دلیل نہیں۔

(۳۷) حرص سے روزی بڑھ نہیں جاتی، مگر آدمی کی قدر گھٹ جاتی ہے۔

(۳۸) تواضع علم کا ثمر ہے۔

(۳۹) لوگوں کے پاس عاجزی کرنے سے ان سے نا امید ہونا اچھا ہے ۔

(۴۰) آدمی اگر عاجز ہو اور نیک کام کرتا رہے تو اس سے اچھا ہے کہ قوت رکھے اور بُرے کام نہ چھوٹے۔

(۴۱) ظلم نعمتیں دور کرتاہے اور سرکشی موجب عذابِ الٰہی ہے۔

(۴۲) بے قراری کچھ تقدیر ِ الٰہی کو نہی مٹاتی مگر اجر اور ثواب کو ضرور ضائع کردیتی ہے۔

(۴۳) غضب سے بچو کہ اس کا شروع جنون اور آخر ندامت ہے۔

(۴۴) تمام لوگوں میں نیک کام پر سب سے زیادہ قادر وہ شخص ہے جس کو جلد غصہ نہ آئے۔

(۴۵) دنیا ایک ایسا گھر ہے جس کا اول تکلیف اور اس کا آخر فناء ہے۔

(۴۶) دنیا اگر آنے لگے تو آتی رہتی ہے اور اگر پیٹھ پھیر لے تو چلی ہی جاتی ہے۔

(۴۷) دنیا ایسی مصیبتوں اور اموات کا مجموعہ ہے جو سخت تکلیف دہ اور غیر مختتم ہیں۔

(۴۸) دین کی دوستی دنیا کا نقصان کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔

(۴۹) خدا کی رحمت سے نا امید ہونا نہایت نقصاندہ ہے۔

(۵۰) انسان کی سب آرزوئیں کبھی پوری ہونے والی نہیں۔

(۵۱) لمبی آرزو اور خلوصِ عمل کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔

(۵۲) فضول امیدوں پر بھروسہ کرنے سے بچو، کہ یہ احمقوں کا سرمایہ ہے۔

(۵۳) سب سے بڑی مصیبت امید کا منقطع کردینا ہے۔

(۵۴) جو شخص بہت بڑی بڑی امیدیں باندھتا ہے وہ موت کو بہت کم یاد کرتا ہے۔

(۵۵) جب تم امیدیں باندھتے باندھتے دور جا پہنچو تو موت کی ناگہانی آمد کو یاد کرو۔

(۵۶) کسی چیز سے اچھی طرح ناامید ہوجانا اس کی طلب میں ذلت اٹھانے سے بہتر ہے۔

(۵۷) موت ایک بے خبر ساتھی ہے۔

(۵۸) مال امیدوں کو مضبوط کرتا ہے اور موت آرزوؤں کی جڑ کاٹتی ہے۔

(۵۹) تکلیف اور تنگی آرام سے موت و حیات سے نہایت قریب ہے۔

(۶۰) موت سے بڑھ کر کوئی چیز سچی نہیں اور امید سے بڑھ کر کوئی چیز جھوٹی نہیں۔

(۶۱) زمانے کے پل پل کے اندر آفات پوشیدہ ہیں۔

(۶۲) دنیا مسافر خانہ ہے، مگر بدبختوں نے اُسے اپنا وطن بنا رکھا ہے۔

(۶۳) عادت پر غالب آنا کمالِ فضیلت ہے۔

(۶۴) خواہش پرستی ہلاک کرنے والا ساتھی ہے اور بری عادت ایک مور آور دشمن ہے۔

(۶۵) خواہش کی تابعداری ایک لا علاج مرض ہے۔

(۶۶) عقلمند آدمی اپنے آپ کو پست کرکے بلندی حاصل کرتا ہے اور نادان اپنے آپ کو بڑھا کر ذلت اٹھاتا ہے۔

(۶۷) عقلمند وہ ہے جو غیروں سے عبرت حاصل کرے نہ کہ خود باعث عبرت بن جائے۔

(۶۸) ہوشیار وہ ہے جو زمانہ کی روشنی پر چلے۔

(۶۹) عقلمندی کا ایک نصف بردباری اور دوسرا نصف چشم پوشی ہے۔

(۷۰) کمینے کے ساتھ بھلا کرنا نہایت بُرا فعل ہے۔

(۷۱) فاسق کی برائی بیان کرنا غیبت نہیں۔

(۷۲) بُرا آدمی کسی کے ساتھ نیک گمان نہیں رکھتا، کیونکہ وہ ہر ایک کو اپنے جیسا خیال کرتا ہے۔

(۷۳) فسق و فجور کے مقامات سے دور رہو، کہ یہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے مقام اور اس کے عذاب کے محلات ہیں۔

(۷۴) فرصت کو کھونا بڑی مصیبت ہے۔

(۷۵) علم مالدار کی زینت اور تنگدستوں کے لئے فراخی کا ذریعہ ہے۔

(۷۶) علم بے عمل ایک آزار اور عمل بغیر اخلاص بیکار ہے۔

(۷۷) علم مال سے بہتر ہے، کیونکہ علم تمہاری حفاظت کرتا ہے اور تم مال کی۔

(۷۸) علم کی خوبی اس پر عمل کرنے اور احسان کی خوبی اس کے جتلانے پر منحصر ہے۔

(۷۹) جس بات کا عالم نہ ہو اُسے بُرا مت سمجھو، ہوسکتا ہے کہ کئی باتیں ابھی تک کان تک نہ پہنچی ہوں۔

(۸۰) خود ستائی کے برابر کوئی حماقت اور علم سے زیادہ کوئی رہنما نہیں۔

(۸۱) تھوڑا علم فساد علم کا موجب ہے اور صحت عمل اور صحتِ علم پر منحصر ہے۔

(۸۲) علم کے بیان کرنے والے بہت ہیں، لیکن بہت کم عمل کرنے والے ہیں۔

(۸۳) اپنی لاعلمی کے اظہار کو کبھی بُرا نہ سمجھو۔

(۸۴) دوستی ایک خود پیدا کردہ رشتہ ہے۔

(۸۵) دشمن ایک بھی بہت ہے اور دوست زیادہ بھی تھوڑے ہیں۔

(۸۶) دنیاداروں کی دوستی ایک ادنیٰ بات سے دور ہوجاتی ہے۔

(۸۷) اگر کوئی قابل شخص دوستی کے لائق نہ ملے تو کسی نااہل سے دوستی مت کرو۔

(۸۸) دوست سے دھوکہ کھانے اور دشمن سے مغلوب ہونے سے بچو۔

(۸۹) انسان جو حالت اپنے لئے پسند کرے اُسی حالت میں رہتا ہے۔

(۹۰) تجربہ سے پہلے کسی پر اطمینان کرنا عقلمندی کے خلاف ہے۔

(۹۱) تجربے کبھی ختم نہیں ہوتے، عقل مند وہ ہے جو ان میں ترقی کرتا ہے۔

(۹۲) بات کی جانچ کرو اور کہنے والے کی طرف خیال نہ کرو کہ کون ہے۔

(۹۳) جب تک کسی آدمی سے بات چیت نہ ہو اس کو حقیر نہ سمجھو۔

(۹۴) حق نہایت زبردست مددگار اور جھوٹ بہت ہی کمزور معاون ہے۔

(۹۵) سچائی میں اگرچہ خوف ہو مگر باعثِ نجات ہے اور جھوٹ میں گو اطمینان ہو مگر موجبِ ہلاکت ہے۔

(۹۶) سچا آدمی سچائی کی بدولت اس مرتبہ کو پہنچ جاتا ہے جسے جھوٹا اپنے مکر و فریب سے نہیں پاسکتا۔

(۹۷) جیسے جہالت کی بات کہنے میں کوئی خوبی نہیں، ایسا ہی حق سے چپ رہنے میں کوئی بھلائی نہیں۔

(۹۸) صبر ایک ایسی سواری ہے جو کبھی ٹھوکر نہیں کھاتی۔

(۹۹) صبر کی بہ نسبت بے قراری زیادہ تکلیف دہ ہے۔

(۱۰۰) مصائب کا مقابلہ صبر سے اور نعمتوں کی حفاظت شکر سے کرو۔

(اقوال کا خزانہ)

۱۔ ہرانسان کی قیمت اس کام سے لگائی جاتی ہے جس کو وہ(دوسروں کے مقابلہ میں اوراپنے دوسرے کاموں کے مقابلہ میں)بہتر طریقہ پر انجام دیتا ہے ۔(انسان کی قیمت اس کے خاص ہنر سے لگائی جاتی ہے)

۲۔لوگوں سے ان کی ذہنی سطح اورفہم کے مطابق بات کرو کیا تمہیں پسند ہے کہ کوئی (اپنے فہم اورادراک سے بالا ہونے کی وجہ سے)اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلائے۔

۳۔ایک شریف آدمی اس وقت بے قابو ہوتا ہے،جب بھوکا ہو اورایک پست فطرت انسان اس وقت بے قابو اورجامہ سے باہر ہوتا ہے،جب شکم سیر ہو(اس کو کسی کی ضرورت نہ ہو)

۴۔ان دلوں کو بھی آرام دو،ان کے لئے حکمت آمیزلطیفے تلاش کرو،کیونکہ جسموں کی طرح دل بھی تھکتے اوراکتاجایا کرتے ہیں۔

۵۔نفس خواہشات کو ترجیح دیتا ہے،سہل اورسست راہ اختیار کرتا ہے،تفریحات کی طرف لپکتا ہے،برائیوں پر ابھارتا ہے،بدی اس کے اندر جاگزیں رہتی ہے،راحت پسند ہے،کام چور ہے،اگر اس کو مجبور کروگے،تولاغر ہوجائے گا اوراگر چھوڑوگےتوہلاک ہوجائے گا۔

۶۔خبردار ہوشیار! اللہ کے سوا قطعاً تم میں سے کوئی کسی سے امید نہ قائم کرے،اپنے گناہوں کے سوا کسی بات سے نہ ڈرے،اگر کوئی چیز نہ آتی ہو تو سیکھنے سے شرم نہ محسوس کرے،اوراگر اس سے کوئی ایسی بات دریافت کی جائے جس کونہیں جانتا ہو تو کہہ دے مجھے معلوم نہیں۔

۷۔غربت ذہانت کو کند کردیتی ہے،ایک غریب آدمی اپنے وطن میں رہ کر بھی پردیسی ہوتاہے۔

۸۔ناکارگی آفت ہے،صبر بہادری ہے،زہد خزانہ ہے،خوف ِخدا ڈھال ہے۔

۹۔اخلاق وآداب ایسے جوڑے ہیں جو بار بار نئے نئے پہنے جاتے ہیں،ذہن ایک صاف و شفاف آئینہ ہے۔

۱۰۔جب کسی کااقبال ہوتا ہے تو دوسروں کی خوبیاں بھی اس سے منسوب کردی جاتی ہیں اورجب زوال آتا ہے تو اس سے اُس کی ذاتی خوبیوں کا بھی انکار کردیا جاتا ہے۔

۱۱۔جب کوئی بات آدمی دل میں پوشیدہ رکھتا ہے تو زبان سے اس کے اشارے مل جاتے ہیں،چہرہ کے اتار چڑھاؤ سے معلوم ہوتا ہے۔

۱۲۔کسی دوسرے کے غلام مت بنو،جب کہ اللہ تعالی نے تم کو آزاد پیدا کیا ہے۔

۱۳۔جھوٹی تمناؤں پر بھروسہ کرنے سے بچتے رہو، تمنائیں بیوقوفوں کا سرمایہ ہیں۔

۱۴۔تم کو بتاؤں کہ سب سے بڑا عالم کون ہے؟وہ جو بندگانِ خدا کو معصیت کی باتیں حسین بناکر نہ دکھائے اورخدا کی کاروائی سے بے خطر نہ رکھے اور اس کی رحمت سے مایوس بھی نہ کرے۔

۱۵۔لوگ محوخواب ہیں جب مریں گے تو ہوش آجائے گا۔

۱۶۔لوگ جن باتوں کو نہیں جانتے ان کے دشمن ہوجاتے ہیں۔

۱۷۔لوگ اپنے آباء واجداد سے زیادہ اپنے زمانہ کے مشابہ ہوتے ہیں (یعنی لوگوں پر وقت اورماحول کا اثر زیادہ پڑتا ہے)

۱۸۔انسان اپنی زبان کے نیچے پوشیدہ ہے (یعنی جب تک آدمی بولے نہیں اس کی علمیت اورحقیقت پوشیدہ رہتی ہے)

۱۹۔جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس کے لئے کوئی بڑا خطرہ یادھوکہ کا اندیشہ نہیں۔

۲۰۔کبھی زبان سے نکلا ہوا ایک لفظ نعمتوں کو چھین لیتا ہے۔

(المرتضیٰ از مولانا ابوالحسن علی ندوی:۲۸۶،۲۹۱)

۲۱۔آپ اپنے یقین کو شک نہ بنائیں (یعنی روزی کا ملنا یقینی ہے اس کی تلاش میں اس طرح اور اتنا نہ لگیں کہ گویا آپ کو اس میں کچھ شک ہے)اوراپنے علم کو جہالت نہ بنائیں (جو علم پر عمل نہیں کرتا وہ اورجاہل دونوں برابر ہوتے ہیں)اوراپنے گمان کوحق نہ سمجھیں (یعنی آپ اپنی رائے کو وحی کی طرح حق نہ سمجھیں)اوریہ بات آپ جان لیں کہ آپ کی دنیا تو صرف اتنی ہے جو آپ کو ملی اورآپ نے اسے آگے چلا دیا یا تقسیم کرکے برابر کردیا پہن کر پرانا کردیا۔
(کنز العمال:۸/۲۲۱)

۲۲۔خیریہ نہیں ہے کہ تمہارا مال اورتمہاری اولاد زیادہ ہوجائے ؛بلکہ خیر یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ ہو اورتمہاری بردباری کی صفت بڑی ہو اوراپنے رب کی عبادت میں تم لوگوں سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔

۲۳۔اگر تم سے نیکی کا کام ہوجائے تو اللہ تعالی کی تعریف کرو اوراگر برائی کا کام ہوجائے تو اللہ تعالی سے استغفار کرو۔

۲۴۔دنیا میں صرف دو آدمیوں کے لئے خیر ہے ایک تو وہ آدمی جس سے کوئی گناہ ہوگیا اورپھر اس نے توبہ کرکے اس کی تلافی کرلی دوسرا وہ آدمی جو نیک کاموں میں جلدی کرتا ہو۔

۲۵۔جو عمل تقویٰ کےساتھ ہو وہ کم شمار نہیں ہوسکتا؛ کیونکہ جو عمل اللہ کے ہاں قبول ہو وہ کیسے کم شمار ہوسکتا ہے۔(کیونکہ قرآن میں ہے کہ اللہ متقیوں کے عمل کو قبول فرماتے ہیں)

(مذکورہ اقوال کے لئے دیکھئے،حلیۃ الاولیاء:۱/۷۵)

۲۶۔سب سے بڑی مالداری عقلمندی ہے ؛یعنی مال سے بھی زیادہ کام آنے والی چیز عقل اور سمجھ ہے اورسب سے بڑی فقیری حماقت اوربے وقوفی ہے،سب سے زیادہ وحشت کی چیز اورسب سے بڑی تنہائی عجب اورخود پسندی ہے اورسب سے زیادہ بڑائی اچھے اخلاق ہیں۔

۲۷۔بے وقوف کی دوستی سے بچنا؛ کیونکہ وہ فائدہ پہنچاتے پہنچاتے تمہارا نقصان کردے گا اورجھوٹے کی دوستی سے بچنا ؛کیونکہ جو تم سے دور ہے یعنی تمہارا دشمن ہے اسے تمہارے قریب کردے گا اور جو تمہارے قریب ہے یعنی تمہارا دوست ہے اسے تم سے دور کردے گا(یا وہ دور والی چیز کو نزدیک اورنزدیک والی چیز کو دور بتائے گا اورتمہارا نقصان کردے گا)اورکنجوس کی دوستی سے بھی بچنا ؛کیونکہ جب تمہیں اس کی سخت ضرورت ہوگی وہ اس وقت تم سے دور ہوجائے گا اوربد کار کی دوستی سے بچنا ؛کیونکہ وہ تمہیں معمولی سی چیز کے بدلے میں بیچ دے گا۔

(حیاۃ الصحابۃ:۳/۵۴۹)

۲۸۔توفیق خداوندی سب سے بہترین قائد ہے اور اچھے اخلاق بہترین ساتھی ہیں،عقلمندی بہترین مصاحب ہے ،حسن ادب بہترین میراث ہے اور عجب وخود پسندی سے زیادہ سخت تنہائی اوروحشت والی کوئی چیز نہیں۔

حیاۃ الصحابۃ:۳/۵۴۹)

۲۹۔اسے مت دیکھو کہ کون بات کررہا ہے ؛بلکہ یہ دیکھو کہ کیا بات کہہ رہا ہے۔

۳۰۔ہربھائی چارہ ختم ہوجاتا ہے صرف وہی بھائی چارہ باقی رہتا ہے جو لالچ کے بغیر ہو۔

۳۱۔اللہ کی قسم! اہل حق کا اکٹھا ہونا ہی اصل میں اکٹھا ہونا ہے چاہے وہ تعداد میں کم ہوں اوراہل باطل کا اکٹھا ہونا حقیقت میں بکھر جانا ہے چاہے وہ مقدار میں زیادہ ہوں۔

(حیاۃ الصحابۃ:۲/۲۰،کنزالعمال:۱/۶۹)

۳۲۔بیشک مومن تو ایسے لوگ ہیں کہ ایک دوسرے سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں اگرچہ ان کے وطن اورجسم دور ہوں اورمنافقین ایسے لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو دھوکہ دینے والے ہوتے ہیں۔

(کنز العمال:۳/۱۴۱)

۳۳۔ میں کسی مسلمان کی ایک ضرورت پوری کردوں یہ مجھے زمین بھر سونا چاندی ملنے سے زیادہ محبوب ہے۔

(کنزالعمال:۳/۳۱۷)

۳۴۔تواضع کی بنیاد تین چیزیں ہیں،آدمی کو جو بھی ملے اسے سلام میں پہل کرے اورمجلس کی اچھی جگہ کے بجائے ادنی جگہ میں بیٹھنے پر راضی ہوجائے اور دکھاوے اورشہرت کو بُرا سمجھے۔

(کنزالعمال:۲/۱۴۳)

۳۵۔جو آدمی بھی اللہ تعالی پر بھروسہ کرے اور یہ سمجھے کہ اللہ تعالی جو حالت بھی اس کے لئے پسند فرماتے ہیں وہ خیر ہی ہے تو وہ اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی حالت کے علاوہ کسی اور حالت کی کبھی تمنا نہ کرے گا اور یہ کیفیت رضا بر قضا کے مقام کا آخری درجہ ہے۔

(کنزالعمال:۲/۱۴۵)

۳۶۔جو اللہ کے فیصلہ پر راضی ہوگا تو اللہ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ تو ہوکر رہے گا ؛لیکن اسے (اس پر راضی ہونے کی وجہ سے)اجر ملے گا اورجو اس پر راضی نہ ہوگا تو بھی اللہ کا فیصلہ ہوکر رہے گا؛ لیکن اس کے نیک عمل ضائع ہوجائیں گے۔

(کنز العمال:۲/۱۴۵)

۳۷۔جہاد کی تین قسمیں ہیں ایک ہاتھ سے جہاد کرنا دوسرا زبان سے جہاد کرناتیسرا دل سے جہاد کرنا،سب سے پہلے ہاتھ والا جہاد ختم ہوگا، پھر زبان والا ختم ہوگا پھر دل والا،جب دل کی یہ کیفیت ہوجائے کہ وہ نیکی کو نیکی نہ سمجھے اوربرائی کو برائی نہ سمجھے تو اسے اوندھا کردیا جاتا ہے یعنی اس کے اوپر والے حصے کو نیچے کردیا جاتا ہے۔ (پھر خیر اورنیکی کا جذبہ اس میں نہیں رہتا )

(حیاۃ الصحابۃ:۲/۸۱۲)

۳۸۔زبان سارے بدن کی اصلاح کی بنیاد ہے، جب زبان ٹھیک ہوجائے تو سارے اعضاء ٹھیک ہوجاتے ہیں اورجب زبان بے قابو ہوجاتی ہے تو تمام اعضاء بے قابوہوجاتے ہیں۔

(حیاۃ الصحابۃ:۲/۷۹۷)

۳۹۔اپنا بھید اپنے تک محفوظ رکھو اورکسی پر ظاہر نہ کرو؛ کیونکہ ہر خیرخواہ کے لئے کوئی نہ کوئی خیر خواہ ہوتا ہے۔

(حیاۃ الصحابۃ:۲/۷۹۷ٌ)

۴۰۔میں نے گمراہ انسانوں کو دیکھا ہے کہ وہ کسی آدمی کو بے داغ صحیح نہیں رہنے دیتے۔

(حیاۃ الصحابۃ:۲/۷۹۷)

۴۱۔جیسے تم خوف کے وقت عمل کرتے ہو ایسے ہی دوسرے اوقات میں بھی شوق اوررغبت سے عمل کیاکرو۔

۴۲۔میں نے ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی جو جنت جیسی ہو اور پھر بھی اس کا طالب سویا ہوا ہو اورنہ ہی ایسی کوئی چیز دیکھی جو جہنم جیسی ہو اورپھر بھی اس سے بھاگنے والا سوتا رہے۔

۴۳۔غورسے سنو!جو حق سے نفع نہیں اٹھاتا اسے باطل ضرور نقصان پہنچاتا ہے۔

۴۴۔جسے ہدایت سیدھے راستے پر نہ چلاسکی،اسے گمراہی سیدھے راستہ سے ضرور ہٹا دے گی۔

(مذکورہ اقوال کے لئے دیکھئے: البدایۃ والنھایۃ:۷۱۸)

۴۵۔جو جان بوجھ کر محتاج بنتا ہے وہ محتاج ہوہی جاتا ہے۔

۴۶۔جو بلا اورآزمائش کے لئے تیاری نہیں کرتا جب اس پر آزمائش آتی ہے تو وہ صبر نہیں کرسکتا۔

۴۷۔جو کسی سے مشورہ نہیں کرتا اسے ندامت اٹھانی پڑتی ہے۔

۴۸۔آدمی کو سیکھنے میں حیا نہیں کرنی چاہیے اورجس آدمی سے ایسی بات پوچھی جائے جسے وہ نہیں جانتا تو اسے یہ کہنے میں حیا نہیں کرنی چاہے کہ میں نہیں جانتا۔

(مذکورہ اقوال کے لئے دیکھئے: کنزالعمال:۸/۲۱۸)

۴۹۔علم مال سے بہتر ہے،علم تمہاری حفاظت کرتا ہے اورمال کی حفاظت تمہیں کرنی پڑتی ہے،علم عمل کرنے سے بڑھتا ہےاور مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے ،عالم کی محبت دین ہے جس کا اللہ کے ہاں سے بدلہ ملے گا،علم کی وجہ سے عالم کی زندگی میں اس کی بات مانی جاتی ہے اوراس کے مرنے کے بعد اس کا اچھائی سے تذکرہ کیا جاتا ہے۔

(حیاۃ الصحابۃ:۳/۱۸۰،۱۸۱)

۵۰۔حقیقی عالم وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے نا امید نہ کرے اورنہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی انہیں کھلی چھٹی دے اور نہ انہیں اللہ کی پکڑسے بے خوف اوربے فکر ہونے دے اور نہ قرآن کے علاوہ کسی اورچیز میں ایسا لگے کہ قرآن چھوٹ جائے۔

(حیاۃ الصحابۃ:۳/۲۳۷)

۵۱۔اس عبادت میں خیر نہیں ہے جس میں دینی علم نہ ہو اور اس دینی علم میں خیر نہیں ہے جسے آدمی سمجھا نہ ہو یا جس کے ساتھ پرہیزگاری نہ ہو اورقرآن کی اس تلاوت میں کوئی خیر نہیں جس میں انسان قرآن کے معنی اورمطلب میں غوروفکر نہ کرے۔

(حیاۃ الصحابۃ:۳/۲۳۷)

۵۲۔حضرت علیؓ نے استاد کے آداب کو ان الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا:

۱۔تمہارے استاد کا یہ حق ہےکہ تم اس سے سوال زیادہ نہ کرو اوراسے جواب دینے کی مشقت میں نہ ڈالو یعنی اسے مجبور نہ کرو۔

۲۔جب وہ تم سے منہ دوسری طرف پھیرلے تو پھر اس پر اصرار نہ کرو اور جب وہ تھک جائے تو اس کے کپڑے نہ پکڑو اورنہ ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کرو اورنہ آنکھوں سے۔

۳۔اس کی لغزشیں تلاش نہ کرو اوراگر اس سے کوئی لغزش ہوجائے تو تم اس کے لغزش سے رجوع کا انتظار کرو اور جب وہ رجوع کرلے تو تم اسے قبول کرلو۔

۴۔اپنے استاد سے یہ نہ کہو کہ فلاں نے آپ کی بات کے خلاف بات کہی ہے۔

۵۔اس کے کسی راز کا افشاء نہ کرو۔

۶۔اس کے پاس کسی کی غیبت نہ کرو اس کے سامنے اوراس کے پیٹھ پیچھے دونوں حالتوں میں اس کے حق کا خیال کرو۔

۷۔تمام لوگوں کو سلام کرو ؛لیکن استادکو خاص طور پرسلام کرو۔

۸۔اس کے سامنے بیٹھو اگر اسے کوئی ضرورت ہوتو دوسروں سے آگے بڑھ کر اس کی خدمت کرو۔

۹۔اس کے پاس جتنا وقت بھی تمہارا گزرجائے تنگدل نہ ہونا ؛کیونکہ یہ عالم کھجور کے درخت کی طرح ہے جس سے ہر وقت کسی نہ کسی فائدے کے حصول کا انتظار رہتا ہے،یہ عالم اس روزہ دار کے درجہ میں ہے جو اللہ کے راستہ میں جہاد کررہا ہو جب ایسا عالم مرجاتا ہے تو اسلام میں ایسا شگاف پڑجاتا ہے جو قیامت تک پر نہیں ہوسکتا۔

(حیاۃ الصحابۃ:۳/۲۳۸)

۵۳۔((الأیام صحائف اعمار کم فخلدوھاصالح اعمالک))

‘‘یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں،اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو’’

(متاع وقت اورکاروان علم :۵۵)

۵۴۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعد مجھے جتنا فائدہ حضرت علیؓ کے اس خط سے ہوا اتنا فائدہ اورکسی چیز سے نہیں ہوا،آپ نے میری طرف خط میں لکھا تھا:
‘‘اما بعد!یہ بات شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ آدمی کو اس چیز کے حاصل کرنے سے خوشی ہوتی ہے جو کبھی اس سے ضائع نہ ہو اورآدمی اس چیز کے ضائع ہونے پر غمگین اورنادم ہوتا ہے،جس کا حاصل کرنا اس کے لئے ممکن نہیں،پس آپ کی خوشی ہمیشہ آخرت کی چیزوں کے حصول اورآپ کا غم آخرت کی چیزوں سے محرومی سے وابستہ ہونا چاہیے،دنیا کی کوئی چیز ضائع ہوجائے تو افسوس مت کرنا اوراگر دنیا کی کوئی چیز مل جائے تو خوشی کی وجہ سے تکبراورخود پسندی کا شکار مت ہونا،تمہارے زیر نظر آخرت کی زندگی ہی ہونی چاہئے’’

(نفحۃ العرب:۱۳۱)

۵۵۔کچھ لوگ اللہ کی عبادت جنت کی رغبت اورلالچ کی وجہ سے کرتے ہیں ‘ فتلک عبادۃ التجار’ یہ تاجروں والی عبادت ہے،کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو خوف اورڈر کی وجہ سے اللہ کی عبادت میں مصروف نظر آتے ہیں ‘فتلک عبادۃ العبید’ یہ غلاموں والی عبادت ہے اور اللہ کی مخلوق میں کچھ ایسے بلند ہمت لوگ بھی ہیں جو اللہ کی عبادت جنت کی لالچ اورجہنم کے خوف سے بے نیاز ہوکر صرف اورصرف اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئے کرتے ہیں‘فتلک عبادۃ الاحرار’ یہ آزاد اور بلند حوصلہ لوگوں کی عبادت ہے۔

(مرقاۃ المفاتیح:۳/۱۴۲)

۵۶۔جس شخص کی زبان اس پر حاکم بن جائے وہ ذلیل ہوکر رہتا ہے۔

۵۷۔عقل مند کا سینہ اس کے رازوں کا صندوق ہوتا ہے۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۳۹)

۵۸۔انسان پر تعجب کرو جو چکنائی سے بنی ہوئی چیز(آنکھ)سے دیکھتا ہے،گوشت (زبان)سے بولتا ہے،ہڈی (کان)سے سنتا ہے اور ایک خالی جگہ(ناک)سے سونگھتا ہے۔

۵۹۔جب دنیا کسی کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو دوسروں کی خوبیاں بھی اسے مل جاتی ہیں اورجب کسی سے رخ پھیرتی ہے تو اس کی خوبیوں سے بھی اسے محروم کردیتی ہے۔

۶۰۔لوگوں کے ساتھ ایسا طرز زندگی اختیار کرو کہ تمہارے مرنے پر وہ آبدیدہ ہوجائیں اورتمہاری زندگی میں وہ تمہارے ہم نشین رہیں۔

۶۱۔سب سے کمزورآدمی وہ ہے جو لوگوں کو دوست نہ بناسکے اوراس سے بھی کمزور وہ شخص ہے جو لوگوں کو دوست بنانے کے بعد ضائع کردے۔

۶۲۔جس کے قریبی لوگ اس کی قدر نہیں کرتے تو دور والے اس کی توقیر وتعظیم میں لگ جاتے ہیں۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۴۰)

۶۳۔ہیبت وخوف سے ناکامی اورحد سے زیادہ حیاء کرنے سے محرومی ملتی ہے۔

۶۴۔مواقع بادلوں کی طرح آتے جاتے رہتے ہیں پس اگر کسی خیر کا موقع مل جائے تو اسے ضائع مت کرو۔

۶۵۔اے ابن آدم !تو دیکھ رہا ہے کہ تیرا رب تجھ پر ہر آن ہر گھڑی نعمتیں برسارہا ہے ؛جبکہ تو اس کی معصیت پر ڈٹا ہوا ہے،ان نعمتوں کو دیکھ کر تجھے گناہوں سے باز آجانا چاہیئے۔

۶۶۔جب کوئی کسی بات کو چھپاتا ہے تو وہ اس کی زبان کی لغزشوں اورچہرے کے خدوخال سے ظاہر ہوجاتی ہے۔

۶۷۔جب تک بیماری کے ساتھ کام کرنا ممکن ہو کرتے رہو۔

۶۸۔سب سے افضل زہد،زہدکوچھپانا ہے۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۴۲)

۶۹۔سب سے بڑی مال داری امید کو خیربادکہنا ہے۔

۷۰۔جس کی امید لمبی ہوگی اس کا عمل خراب ہوجائے گا۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۴۵)

۷۱۔اگر نفلی عبادت فرائض میں نقصان کا سبب بن رہی ہوں تو ایسے نوافل سے ثواب حاصل نہ ہوگا۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۴۶)

۷۲۔وہ گناہ جو آپ کو غمگین کردے اس نیکی سے بہتر ہے جو آپ کو عجب اورخود پسندی میں مبتلا کردے۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۴۷)

۷۳۔سخاوت تو وہ ہے جو بن مانگے عطا کیا جائے،جو چیز مانگ کر دی جائے وہ حیاء اورشرمندگی سے بچنے کے لئے ہے۔

۷۴۔عقل جیسی مالداری نہیں،جہالت جیسی ناداری نہیں،ادب جیسی میراث کوئی نہیں اورمشورہ جیسی دانش مندی کوئی نہیں۔

۷۵۔صبردو طرح کا ہوتا ہے،ایک وہ صبر جو کسی ناگوار صورت کے پیش آنے پر کیا جائے اور دوسرا وہ صبر جو کسی محبوب چیز سے محرومی پر کیا جائے۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۴۸)

۷۶۔مال تمام شہوات کا مادہ اور بنیاد ہے۔

۷۷۔زبان ایک درندہ ہے،اگر اسے آزاد چھوڑدیا جائے تو ہلاک کردے گا۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۴۸)

۷۸۔محبوب لوگوں کو کھودینا انسان کو وطن میں بھی پردیسی بنادیتا ہے۔

۷۹۔جب عقل کامل ہوجاتی ہے تو کلام کم ہوجاتا ہے۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۴۹)

۸۰۔مجھے اس شخص پر تعجب ہوتا ہے جو اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید ہوبیٹھا ہے ؛حالانکہ اس کے پاس استغفار موجود ہے،جس کے ذریعے وہ اپنے گناہوں کو معاف کروا سکتا ہے۔

۸۱۔جوشخص اپنے اور اللہ تعالی کے تعلق کو درست کرلےگا اللہ تعالی اس کے اور لوگوں کے تعلق کو درست کردے گا،جوشخص آخرت کے معاملہ کو درست کردے گا اللہ تعالی اس کی دنیا کے معاملہ کی اصلاح فرمادے گا۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۵۲)

۸۲۔کامیاب فقیہ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے نا امید نہ کرے ،اور انہیں اللہ کے عذاب سے مامون نہ کرے۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۵۳)

۸۳۔تقویٰ کے ساتھ تھوڑا عمل بھی بہت ہے،جو چیز قبول ہوجائے وہ تھوڑی کیسے ہوسکتی ہے۔

۸۴۔اللہ تعالی پر یقین کے ساتھ سوجانا شک کی نماز سے بہتر ہے۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۵۴)

۸۵۔دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے،اس کاظاہر نرم وملائم اور دلکش ہے جبکہ اس کے اندر ہلاکت خیز زہر چھپا ہوا ہے،بےوقوف جاہل اس میں دلچسپی رکھتا ہے جب کہ سمجھدار اوردانش مند شخص اس سے دور بھاگتا ہے۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۵۹)

۸۶۔جس شخص کے دل میں خالق کی عظمت ہوتی ہے ساری مخلوق اس کی نگاہ میں چھوٹی ہوجاتی ہے۔

(نھج البلاغۃ،السحرہ الرابع:۵۶۱)

۸۷۔جسے چار چیزیں عطا کردی جائیں وہ چار چیزوں سے محروم نہیں ہوسکتا(۱)جسے دعا عطا کردی جائے وہ عطا سے محروم نہیں ہوتا۔(۲)جس توبہ عطا کردی جائے وہ قبولیت سے محروم نہیں ہوتا۔(۳)جسے استغفار عطا کردیا جائے وہ مغفرت سے محروم نہیں ہوتا۔ (۴)جسے شکر عطا کردیا جائے وہ زیادتی سے محروم نہیں ہوتا۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۶۲)

۸۸۔صدقہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے رزق طلب کرو۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۶۴)

۸۹۔اپنے آپ کو تہمت کی جگہوں پر لے جانے والا اس شخص کو ملامت نہ کرے جو اس کے بارے میں بد گمانی کرتا ہے۔

۹۰۔فقر بڑی موت ہے۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۶۳)

۹۱۔لوگ جس چیز سے ناواقف ہوں اس کے دشمن ہوتے ہیں۔

۹۲۔سینہ کا کشادہ پن سرداری کا زینہ ہے۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۷۰)

۹۳۔جیسے جہالت کی بات کرنا خیر سے خالی ہے اسی طرح دانش مندی کی بات نہ کرنے میں بھی خیر نہیں۔

۹۴۔جسے صبر فائدہ پہنچاسکے اسے بے صبری ہلاک کردیتی ہے۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۷۱)

۹۵۔ہر برتن کی یہ حالت ہے کہ جب اس میں کوئی چیز ڈالی جاتی ہے تو وہ تنگ ہوتا ہے،لیکن علم کا برتن ایسا ہے کہ جب اس میں کوئی چیز ڈالی جاتی ہے وہ کھلتا چلاجاتا ہے۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۷۴)

۹۶۔مختلف حالات کے الٹ پلٹ ہونے میں آدمی کے جواہر کا پتہ چلتا ہے۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۷۴)

۹۷۔لالچی ذلت کی بیڑیوں میں جکڑارہتا ہے۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۷۷)

۹۸۔اگر کوئی شخص آپ کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہے تو آپ اس کے گمان کو سچا کرکے دکھائیں۔

۹۹۔میں نے اللہ تعالیٰ کو ارادوں کے ٹوٹنے اور نیتوں کے بکھرنے سے پہچانا۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۸۰)

۱۰۰۔تمہارے دوست بھی تین ہیں اوردشمن بھی،تمہارے تین دوست یہ ہیں۔ (۱)تمہارا دوست (۲)تمہارے دوست کا دوست (۳)تمہارے دشمن کا دشمن،تمہارے تین دشمن یہ ہیں۔ (۱)تمہارا دشمن (۲)تمہارےدوست کا  شمن(۳)تمہارے دشمن کا دوست

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۹۴)

۱۰۱۔غیرت مند آدمی کبھی زنا نہیں کرتا۔

۱۰۲۔موت بہترین پہرے دار ہے۔

۱۰۳۔آدمی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک اللہ تعالی کے خزانوں پر اس کا اعتماد اپنے پاس موجود چیزوں سے زیادہ نہ ہوجائے۔

۱۰۴۔تنہائیوں میں گناہ کرنے سے بچو؛ کیونکہ جو تمہیں دیکھ رہا ہے فیصلہ اسی کو کرنا ہے۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۹۸)

۱۰۵۔ہرآدمی کے مال میں دوشریک ہوتے ہیں ایک وارث اوردوسرا حوادثات زمانہ۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۶۰۰)

۱۰۶۔کسی کے استحقاق سے بڑھ کر اس کی تعریف کرنا خوشامد ہے اور استحقاق سے کم تعریف کرنا حسد۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۶۰۱)

۱۰۷۔بغیر عمل کے دعوت دینے والا ایسے ہے جیسے بغیر کمان کے تیر پھینکنے والا۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۶۰۰)

۱۰۸۔کسی کی زبان سے برائی کا کوئی کلمہ نکلے تو اس کے بارے میں اس وقت تک بد گمانی نہ کرو جب تک اس کی بات میں بھلائی کا احتمال موجود ہے۔

۱۰۹۔علم عمل کے ساتھ ملا ہوا ہے،پس جو علم حاصل کرے وہ عمل بھی کرے، علم عمل کی طرف پکارتا ہے اگر اس کی پکار سن لی جائے تو وہ ٹھہرجاتا ہے اور اگر اس کی پکار پر لبیک نہ کہا جائے تو علم رخصت ہوجاتا ہے۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۶۰۴)

۱۱۰۔بخل تمام خرابیوں کو جمع کرنے والا ہے،یہ ایک لگام ہے جس کے ذریعہ انسان کو تمام خرابیوں کی طرف ہنکایا جاسکتا ہے۔

۱۱۱۔جب آدمی کسی چیز کی طلب کرتا ہے تو وہ اسے مل ہی جاتی ہے اگر ساری نہ بھی ملے تو کچھ نہ کچھ تو ہاتھ آہی جاتا ہے۔

۱۱۲۔وہ خیر کوئی خیر نہیں جس کے بعد جہنم ہے اور وہ شر کوئی شر نہیں جس کے بعد جنت ہے،دنیا کی ہر نعمت جنت کے مقابلہ میں حقیر ہے اوردنیا کی ہر مصیبت جہنم کی مصیبتوں کے مقابلہ میں عافیت ہے۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۶۱۰)

۱۱۳۔جو دنیا مل جائے وہ لے لو اور دنیا کی جو چیز تم سے دورہے تم بھی اس سے دور رہو۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۶۱۱)

۱۱۴۔جو حق سے مقابلہ کرے گا حق اس کو پچھاڑ کر رکھ دے گا۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۶۱۲)

۱۱۵۔رزق کی دو قسمیں ہیں ایک رزق طالب ہے اوردوسرا رزق مطلوب ہے،جو شخص دنیاکو طلب کرتا ہے موت اس کی طالب بن جاتی ہے،یہاں تک کہ اسے دنیا سے نکال دیتی ہے اور جو شخص آخرت کا طالب بن جاتا ہے دنیا اس کی طالب بن جاتی ہے،یہاں تک کہ اسے اپنا رزق ضرورت کے مطابق مل جاتا ہے۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۶۱۶)

۱۱۶۔جو چھوٹی مصیبتوں پر صبرنہ کرے اللہ تعالیٰ اسے بڑی آزمائشوں میں مبتلا کردیتے ہیں۔

۱۱۷۔انسان کا کیا فخر کرنا ؟ اس کی ابتداء ناپاک پانی ہے اورانتہاء مردار لاش ہے،نہ اپنا رزق خود پیدا کرسکتا ہے اورنہ اپنی موت کو دور کرسکتا ہے۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۶۱۹)

۱۱۸۔سب سے خطرناک گناہ وہ ہے جسے اس کا کرنے والا ہلکا سمجھے۔

۱۱۹۔بدترین دوست وہ ہے جس کے لئے تکلف کرنا پڑے۔

۱۲۰۔جب کسی مومن کو اس کا بھائی شرمندہ کرے یا غصہ دلائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کی جدائی کا وقت قریب آگیا ہے۔

(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۶۲۴)

۱۲۱۔عقل مند اپنے آپ کو پست کرکے بلندی حاصل کرتا ہے اور نادان اپنے آپ کوبڑھاکرذلت اٹھاتا ہے۔

۱۲۲۔دوستی ایک خود پیدا کردہ رشتہ ہے۔

۱۲۳۔گناہوں پر نادم ہونا ان کو مٹادیتا ہے اور نیکیوں پر مغرور ہونا ان کو برباد کردیتا ہے۔

۱۲۴۔بے کاری میں عشق بازی یاد آجاتی ہے۔

۱۲۵۔معافی نہایت اچھا انتقام ہے۔

۱۲۶۔غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔

۱۲۷۔تجربے کبھی ختم نہیں ہوتے اور عقل مند ان میں ترقی کرتا ہے۔

۱۲۸۔مصیبت میں گھبرانا کمال درجے کی مصیبت ہے۔

۱۲۹۔جلدی سے معاف کرنا انتہائے شرافت اور انتقام میں جلدی کرنا انتہائے رذالت ہے۔

۱۳۰۔شریف کی پہچان یہ ہے کہ جب کوئی سختی کرے تو سختی سے پیش آتا ہے اورجب کوئی نرمی کرے تو ڈھیلا ہوجاتا ہے اورکمینے سے جب کوئی نرمی کرےتو سختی سے پیش آتا ہے اور جب سختی کرے تو ڈھیلا ہوجاتا ہے۔

۱۳۱۔انسان جوحالت اپنے لئے پسند کرتا ہے اسی حالت میں رہتا ہے۔

۱۳۲۔بُرا آدمی کسی کے ساتھ نیک گمان نہیں رکھتا؛ کیونکہ وہ ہر ایک کو اپنے جیسا گمان کرتا ہے۔

۱۳۳۔جب تک کوئی بات تیرے منہ میں ہے تب تک تو اس کا مالک ہے،جب زبان سے نکال چکا تو وہ تیری مالک ہے۔

۱۳۴۔اول عمر میں جو وقت ضائع کیا ہے آخر عمر میں اس کا تدارک کر؛تا کہ انجام بخیر ہو۔

۱۳۵۔جس شخص کے دل میں جتنی زیادہ حرص ہوتی ہے اس کو اللہ تعالی پر اتنا ہی کم یقین ہوتا ہے۔

بہ شکریہ انوارِ اسلام