Aqwal e Zareen Hazrath Abdullah Ibn e Mubarak RA

Aqwal e Zareen Hazrath Abdullah Ibn e Mubarak RA

اقوالِ زرین – حضرت عبداللہ ابنِ مبارکؒ

(۱)جس نے روزانہ ۱۲ رکعت سنت فرائض کے علاوہ پڑھیں اس نے نماز کا حق ادا کردیا ، جس نے ہر ماہ تین روزے رکھ لئے اس نے روزوں کا حق ادا کردیا ، جس نے روزانہ ۱۰۰۰ آیتیں تلاوت کرلیں اس نے قرآن کا حق ادا کردیا ، اور جس نے کم از کم ہر ہفتہ ایک درہم خیرات کیا اس نے صدقہ کا حق ادا کردیا ۔Aqwal e Zareen Hazrath Abdullah Ibn e Mubarak RA

(۲)ایک ذہین عالمِ دین نے ذخیرۂ احادیث کو جمع کیا ، پھر اس میں سے چالیس ہزار احادیث منتخب کیں ،ان چالیس ہزار میں سے پھر چار ہزار کا انتخاب کیا ، پھر ان میں سے چار سو کو منتخب کیا ، پھر ان چار سو میں سےچالیس کو چھانٹا ، پھر ان چالیس میں سے چار کو منتخب کیا وہ چار یہ ہیں : کسی عورت پر کسی حال میں اعتماد نہ کرو ، کسی حال میں مال سے دھوکہ نہ کھاؤ ، اپنےمعدہ (پیٹ )پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو ، اور جو علم تم کو نفع نہ دے اس کے پیچھے نہ پڑو ۔

(۳)ایک آدمی خانۂ کعبہ کا طواف کرتا ہے اور اہل خراسان کو دکھلاتا ہے ، لوگوں نے پوچھا یہ کیونکر؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ دل سے یہ پسند کرتا ہے کہ خراسان والے کہیں کہ فلاں شخص مکہ میں سعی اور طواف کے لئے مجاور ہورہا ہے ، اسے یہ عمل مبارک ہو ۔

(۴)آدمی اس وقت تک عالم رہتا ہے جب تک اسے یہ خیال ہو کہ شہر میں اس سے بھی زیادہ علم والے موجود ہیں ، اور جب اسے یہ خیال ہوکہ سب سے بڑا میں ہی ہوں تو وہ جاہل ہے ۔

(۵)بری نظر چھوڑدے خشوع کی توفیق ہوگی ، بے ہودہ گوئی ترک کر دےدانا ہوجائےگا، کم کھا عبادت کی طاقت ہوگی ، لوگوں کے عیوب کی تلاش نہ کر اپنے عیوب پر مطلع ہوگا ، اور اللہ کی ذات میں غور و خوض نہ کر نفاق او ر شک سے بچے گا ۔

(۶)جسے کوئی مصیبت پہونچے اسے پہلے دن وہی کام کرنا چاہئے جو پانچویں دن کرےگا یعنی ہنسنا ، کھانا پینا وغیرہ ۔ حدیث شریف میں آیا ہے “من سعادۃالعبد رضاہ بقضاءاللہ تعالیٰ ” یعنی بندے کی سعادت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قضا پر راضی ہو ۔

(۷)بہت سے لوگ قرآن مجید کو اٹھائے پھرتے ہیں یعنی حافظ قرآن ہوتے ہیں اور قرآن مجید ان کو پیٹ میں سے لعنت کرتا ہے حافظ قرآن جب اس کی نافرمانی کرتا ہے تو قرآن شریف اسے اندر سے کہتا ہےکہ تجھے کیا ہوگیا تونے مجھے کیوں حفظ کیا کہ اپنے پروردگار سے بھی نہیں شرمندہ ہوتا۔

(۸)اہلِ دنیا دنیا کی سب سے لذیذ اور مرغوب چیز سے لطف اندوز ہوئے بغیر یہاں سے رخصت ہوجاتے ہیں ، لوگوں نے پوچھا کہ سب سے لذیذ چیز کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا معرفتِ الٰہی ۔

(۹)ایک شخص نے پوچھا کہ تواضع کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اغنیاء کے مقابلہ میں خود دار رہنا ۔

(۱۰)بہت سے چھوٹے اعمال ہیں جو حسنِ نیت کی وجہ سے بڑے ہوجاتے ہیں ، اور بہت سے بڑے اعمال ہیں جو سوءِ نیت کی وجہ سے چھوٹے ہوجاتے ہیں ۔

(۱۱)ابو وہب مروزی نے آپ سے غرور کی تعریف پوچھی تو فرمایا کہ لوگوں کو حقیر سمجھنا اور انکے عیب نکالنا غرور ہے ، پھر عجب یعنی خود پسندی کی تعریف پوچھی تو فرمایا کہ آدمی یہ سمجھے کہ جو اس کےپاس ہے وہ دوسرے کے پاس نہیں ہے

(۱۲)ایک شخص نے جہاد اور اس کی تیاری کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا کہ اپنے نفس کو حق پر جمائے رکھنا یہاں تک کہ وہ خود اس پر جم جائے سب سے بڑا جہاد ہے ۔

(۱۳)تین جماعتوں کا استخفاف نہ کرو علماء ،سلاطین اور اخوان ، اس لئےکہ جو علماء کے ساتھ استخفاف کرے گا تو اس کی آخرت ضائع ہو جائے گی ، اور جو بادشاہوں کے ساتھ توہین کا معاملہ کرےگا تو اس کی دنیا برباد ہوجائےگی ، اور جو بھائیوں کی تحقیر کرےگا تو اس کی مروت ختم ہوجائےگی ۔
بہ شکریہ انوارِ اسلام